بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی اور والدہ اور بہن کو کہنا میں نے تم سب کو طلاق دی کا حکم


سوال

میرے شوہر ایک ہفتے سے الٹی سیدھی حرکتیں کررہے تھے، شک کرنا، گالیاں دینا اور خود ہی اپنے آپ سے باتیں کرنا وغیرہ ہر وقت نشہ میں رہتے تھے، آئس کا نشہ کرتے تھے، ایک دن فجر کے وقت میرے ساتھ لڑائی ہوئی تو ان کی والدہ نے کہا کہ آپ میرے کمرے میں آجاؤ تو میں چلی گئی پھر اسی دن اٹھ کر پھر لڑائی ہوئی اور گھر میں کام کرنے والی ماسی کے سامنے شوہر نے مجھے مارنا شروع کردیا تو ان کی امی قریب آئی اور پوچھا  کہ کیا ہورہا ہے  تو شوہر  نے کہا کہ میں باتیں کر رہا تھا تو ان کی والدہ نے مجھے کہا کہ آپ دوسرے کمرے میں جاؤ تو میں چلی گئی وہاں آکر شوہر نے کہا کہ تم میرے ساتھ رہنا چاہتی ہو یا اس کے ساتھ  تو میں نے کہا کہ تمہارا تو روز کا مسئلہ ہوگیا ہے میں تو اب امی کے ساتھ رہوں گی تو شوہر نے غصہ میں آکر کہا کہ میں نے تم سب کو طلاق دی، یہ جملہ چھ بار کہا، اس وقت وہ اپنی اصل حالت میں نہیں تھے وہیں پر ماسی کے سامنے اپنے کپڑے تبدیل کر کے باہر چلے گئے پھر چاربجے واپس آئے تو کہا کہ میں نےتو امی اور بہن کو طلاق دی ہے کیوں کہ ہمارے معاملہ کے بیچ میں بولتی ہے آپ کا تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا، میں اس پر حلف اٹھانے کے لیے تیار ہوں اب آیا طلاق ہوئی ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے شوہر کا سائلہ سے بات جیت کے دوران چھ بار یہ جملہ کہنا کہ "میں نے تم سب کو طلاق دی " شرعاً اس سے سائلہ پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں، کیوں کہ والدہ اور بہن طلاق کا محل نہیں ، اس کے بعد سائلہ  کے شوہر کا یہ کہنا آپ (سائلہ) کا تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا شرعاً کوئی حیثیت نہیں رکھتا، لہذا  سائلہ اپنے شوہر پر حر مت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہےاور نکاح ختم ہو گیا ، اب  رجوع جائز نہیں اور دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا ۔

سائلہ  عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک)گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے ۔  

             البتہ عدت گزارنے کے بعد سائلہ  اگر کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے اور وہ اس سے صحبت (ہمبستری ) کرے اس کے بعد  دوسرا شخص اس کو طلاق دیدے یا اس کا انتقال ہو جائے تو اس کی عدت گزار کر پہلے شوہر سے نکاح کرنا جائز ہوگا۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: و محله المنكوحة) أي و لو معتدة عن طلاق رجعي أو بائن غير ثلاث في حرة و ثنتين في أمة أو عن فسخ بتفريق لإباء أحدهما عن الإسلام أو بارتداد أحدهما."

(کتاب الطلاق، ص:230، ج:3، ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"و إن کان الطلاق ثلاثًا في الحرۃ و ثنتین في الأمة، لم تحلّ له حتی تنکح زوجًا غیرہ نکاحًا صحیحًا، و یدخل بھا، ثمّ یطلقھا او یموت عنھا."

(الباب السادس في الرجعة، فصل فیما تحل به المطلقة، کتاب الطلاق  ص:473  المجلد الاول، مکتبہ رشیدیه) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100504

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں