بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کیلئے علیحدہ کمرہ


سوال

میری  ساس اپنے شوہر سے یعنی میرے سسر سے لڑکر ہمارے گھر آگئی ہیں ۔   مجھے ان کے گھر رہنے  سے کوئی مسئلہ نہیں، لیکن وہ میرے بیڈ روم میں سوتی ہیں،  میں حمل  سے ہوں میرےشوہر رات کی ڈیوٹی کرتے ہیں، میرے  دو بچے ہیں،  مجھے نیچے  سونے  میں پریشانی ہے حمل کی وجہ سے،  دن میں میرے شوہر بیڈپہ لیٹتے ہیں تو یہ ان کے ساتھ بھی لیٹ کے سوجاتی ہیں۔ اسی حالات میں  15دن سے زیادہ گزر چکےہیں،  ہماری پرائیوسی ڈسٹرب ہوئی ہے۔  میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ  10  سال کا بیٹا ماں کے  ساتھ نہیں سو سکتا آپ تو جوان ہو۔  پر وہ مجھ سے بحث کرنے لگے ۔ آپ مجھے اس حوالے سے رہنمائی فرمادیں اور فتوی بھی دے دیں!

جواب

صورتِ  مسئولہ میں یہ آپ کا حق ہے کہ آپ اپنے شوہر کے  ساتھ اپنے کمرے میں رہیں اور اپنے کمرے میں کسی اور کو  سونے کی اجازت نہ دیں۔لیکن جب کہ آپ کے شوہر کی والدہ اپناگھر چھوڑ کر آئی ہیں اور آپ کے شوہر کے ذمہ بیٹے ہونے کی وجہ سے ان کا ادب کرنا اور ان کا خیال رکھنا ضروری ہے ،تو  آپ کو چاہیے کہ آپ ان کو ادب سے سمجھائیں  کہ گھر میں کسی دوسرے بستر پر جو آپ کے کمرے  سے باہر ہو، اس کا انتظام اپنی والدہ کے لیے کرلیں اور آپ کا کمرہ آپ کے  لیے خاص رہے ،تا کہ آپ کی اور پیدا ہونے والے بچے کی صحت بھی متاثر نہ ہو۔

نیز یہ بات بھی درست ہے کہ حدیثِ پاک میں بچوں کی عمر دس سال ہوجانے کے بعد ان کے بستر جدا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، لہٰذا آپ کے شوہر کا اپنی والدہ کے ساتھ ایک ہی بیڈ پر سونا مناسب نہیں ہے، لہٰذا انہیں اپنے بستر جدا کرنے چاہییں۔

امداد الفتاویٰ میں ہے:

"سوال: (628) جناب نے ایک روز وعظ میں حقوق زوجین کے متعلق فرمایاتھاکہ زوجہ کا ایک یہ بھی حق ہے کہ اگر وہ خاوند کے والدین سے علیحدہ رہنا چاہے تواس کا منشا پورا کردینا واجب ہے،  اس کے ساتھ گزارش ہے کہ کلام مجید میں خدواندکریم کا یہ حکم ہے کہ سوائے شرک کے اورتمام امور میں والدین کا حکم مانو تویہ فرض ہوا، اب قابلِ  دریافت یہ امرہے کہ والدین کی اگرمرضی نہیں ہے کہ بیوی کو ان سے علیحدہ رکھاجاوے اور زوجہ کی یہ مرضی ہے کہ ان سے علیحدہ رہے خواہ ایک ہی مکان میں ہو یاعلیحدہ مکان میں توکس طرح کرناچاہیے؟ اور اس کی بابت کیاحکم ہے؟ آیا پہلے فرض ادا کیاجائے یاواجب؟ براہ نوازش اس کی بابت مفصل تحریرفرماویں تاکہ آسانی سے سمجھ میں آجاوے۔

الجواب: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

والدین کی اطاعت  ترک واجب میں نہیں  اور عورت کے یہ حقوق واجب ہیں، پس اگروالدین ان کے ترک کوکہیں توان کی اطاعت نہیں۔" 

(امدادالفتاوی، 2/526)

اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں حضرت تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

'چوں کہ شرعاً عورت کوحق حاصل ہے کہ شوہرکے ماں باپ سے علیحدہ رہے،اوراگروہ اپنے حق جائزکامطالبہ کرے گی توشوہرپراس کے حق کاادا واجب ہوگا۔اورواجب کاترک معصیت ہے،اورمعصیت میں کسی کی اطاعت نہیں،لہذا اس انتظام کونہ بدلیں'۔

(امدادالفتاویٰ،2/525)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200809

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں