۱) میں نے اپنی بیوی کو چار جولائی ۲۰۲۴ء ایک طلاق دی تھی تحریری طلاق نامہ بنواکر، ا ور اس میں میں نے سائن بھی کیا تھا، اور آج ۵ اکتوبر ہے، کیا شریعت کی رو سے ایسی طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟ اور میری بیوی پر عدت گزارنا لازم تھا یا نہیں؟
۲) میں نے اسے ایک طلاق دی تھی ، اور ابھی تک میں نے رجوع نہیں کیا، تو کیا میں آئندہ کبھی اس عورت سے نکاح کرسکتا ہوں یا نہیں؟
۳) کیا میں اپنی اس بیٹی سے ملاقات کرسکتا ہوں یا نہیں؟ اور اگر اس کے گھر والے مجھے ملاقات کرنے سے روکیں تو اس کا کیا حکم ہے؟
۴) میری بیٹی ابھی تقریبا ڈیڑھ سال کی ہے اور میں اس کے اخراجات کے طور پر رقم بھی بھجواتا ہوں، میری اس بچی کا مجھ پر کیا کیا حق بنتا ہے؟ اور اسے میں کب اپنے پاس واپس لانے کا اختیار رکھتا ہوں؟
۵) میری بیوی طلاق سے پہلے بھی اپنے میکے میں رہتی تھی، اوراب بھی وہیں ہے۔ اس کا نان و نفقہ کیا مجھ پر لازم تھا یا نہیں؟ اور کیا ابھی مجھے دینا لازم ہے یا نہیں؟ کیوں کہ وہ تو طلاق سے پہلے ہی مجھ سے لڑکر چلی گئی تھی۔
1،2۔صورتِ مسئولہ میں سائل نے جو طلاق نامہ تحریر کروایا تھا، اس پر سائن بھی کر دیے تھے، اس سے سائل کی بیوی پر ایک ہی طلاق واقع ہوئی ہے، لہذا 4 جولائی ہی سے بیوی کی عدت بھی شروع ہوگئی تھی، اور چوں کہ عدت کے دوران سائل نے رجوع نہیں کیا تھا، لہذا مطلقہ بیوی کی تین ماہواریاں گزرچکی ہوں تو اس کی عدت گزر چکی ہے، اور دوسری جگہ نکاح کے لیے آزاد ہے۔ سائل نے چوں کہ ایک ہی طلاق دی ہے، اس لیے دوبارہ اسی عورت سے اس کی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح جائز ہوگا۔
3) سائل اپنی بچی سے جب چاہے ملاقات کرسکتا ہے، عورت کے گھر والوں کا ملنے کے لیے نہ چھوڑنا شرعا بچی اور والد پر ظلم ہے۔
4) سائل پر بیٹی کا حق یہ ہے کہ اس کا نان و نفقہ سائل پر لازم ہے اور نوسال تک بچی والدہ کے پاس رہے گی بشرطیکہ بچی کے غیر محرم سے نکاح نہ کرلے۔نوسال عمر ہونے کے بعد بچی اپنے والد کی پرورش میں آجائے گی ۔
5) صورتِ مسئولہ میں سائل کی بیوی جب بغیر اجازت کے میکے چلی گئی تھی، اور شوہر کے متعدد بار بلانے پر بھی واپس شوہر کے گھر نہیں آئی تووہ ناشزہ (نافرمان) ہوئی اور جو بیوی بغیر کسی شرعی وجہ کے شوہر کا گھر چھوڑ دے اس کا نفقہ شوہر پر لازم نہیں ہوتا اس لیے بیوی گزشتہ زمانے کے نفقہ کا مطالبہ نہیں کرسکتی ۔
الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:
"كتب الطلاق، وإن مستبينا على نحو لوح وقع إن نوى،
و في الرد: (قوله كتب الطلاق إلخ) قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته،،وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو."
(رد المحتار على الدر المختار: ج3، ص247، ط: دار الفكر بيروت)
بدائع الصنائع میں ہے:
" أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت."
(كتاب الطلاق: فصل في بيان حكم الطلاق، ج:3 ص:180، ط: دار الكتب العلمية)
و فيه أيضا:
"فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد ."
(كتاب الطلاق: فصل في بيان حكم الطلاق، ج:3 ص:187، ط: دار الكتب العلمية)
الدر المختار میں ہے:
"(بلغت الجارية مبلغ النساء، إن بكرا ضمها الأب إلى نفسه) إلا إذا دخلت في السن واجتمع لها رأي فتسكن حيث أحبت حيث لا خوف عليها (وإن ثيبا لا) يضمها (إلا إذا لم تكن مأمونة على نفسها) فللأب والجد ولاية الضم لا لغيرهما كما في الابتداء بحر عن الظهيرية."
(كتاب الطلاق، باب الحضانة، ج:3 ص:568، ط: دار الفكر بيروت)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإن نشزت فلا نفقة لها حتى تعود إلى منزله والناشزة هي الخارجة عن منزل زوجها المانعة نفسها منه ."
(الفتاوى الهندية: كتاب الطلاق، باب النفقات، ج:1 ص:568، ط: دار الكتب العلمية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144604100134
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن