اگر بیوی کے پاس اپنا مال موجود ہے، کیا اس صورت میں بھی شوہر پر بیوی کا نفقہ لازم ہے؟
واضح رہے کہ بیوی کے پاس اگر اپنا مال موجود ہو، تب بھی شوہر پر اس کا نفقہ ادا کرنا لازم ہے، کیوں کہ نفقہ تین اسباب میں سے کسی ایک سبب کے پائے جانے کی وجہ سے لازم ہوتا ہے:
(1) زوجیت۔ (2) قرابت۔ (3) ملک۔
نیز نفقہ احتباس (بیوی کو اپنے پاس روکے رکھنے) کے بدلہ میں ہوتا ہے، اس بناء پر اگر بیوی مال دار بھی ہو تب بھی شوہر پر اس کا نفقہ دینا لازم ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(ونفقة الغير تجب على الغير بأسباب ثلاثة: زوجية، وقرابة، وملك)... (فتجب للزوجة)... (على زوجها)؛ لأنها جزاء الاحتباس، وكل محبوس لمنفعة غيره يلزمه نفقته كمفت وقاض ووصي زيلعي... (فقيرة أو غنية موطوءة أو لا)."
(كتاب الطلاق، باب النفقة، ج: 3، ص: 574،572، ط: سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"تجب على الرجل نفقة امرأته المسلمة والذمية والفقيرة والغنية دخل بها أو لم يدخل كبيرة كانت المرأة أو صغيرة يجامع مثلها كذا في فتاوى قاضي."
(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الأول في نفقة الزوجة، ج: 1، ص: 544، ط: دار الفكر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144506101448
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن