بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مطلقہ بیوہ کا نا بالغ بچیوں کو اپنے پاس نہ رکھنے کا حکم


سوال

اگر زوجین میں تین طلاق ہو جائیں اور دو نابالغ بیٹیاں ہیں ،اور والدہ بچیوں کو اپنے پاس رکھنے کے لیے راضی نہیں ہے تو کیا کیا جاۓ؟

جواب

واضح رہے کہ اولاد کی پرورش کی حق دار سب سے پہلے اُن کی والدہ ہے ، اگر  والدہ بچیوں کو اپنے پاس رکھنے کے  لیے راضی نہیں ہے یا اُس  نےبچے کے  اجبنی کے ساتھ نکاح کر لیا ہو تو پرورش کا حق نانی کوہے، اگرنانی نہ ہو پھردادی کو ہے  ،اگریہ بھی نہ ہو پھر حقیقی بہن کو ہے  یاماں شریک بہن اگریہ بھی نہ ہو پھر بھانجی کو ہے  اگریہ بھی نہ ہوپھر بھتیجیاں اگریہ بھی نہ ہوپھرخالہ کوہے اگرخالہ بھی نہ ہو تو سب سے آخرمیں پھوپھی کو ہے۔

لہٰذا صورتِ  مسئولہ میں  والدہ بچیوں کو اپنے پاس رکھنے کے  لیے راضی نہیں ہے، پھرپرورش کاحق  مذکورہ ترتیب  کی موافق  جو مقدم ہے اس کو ہوگا۔

فتاوی ھندیہ میں ہے:

"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدة أو فاجرة غير مأمونة كذا في الكافي. سواء لحقت المرتدة بدار الحرب أم لا، فإن تابت فهي أحق به كذا في البحر الرائق. وكذا لو كانت سارقة أو مغنية أو نائحة فلا حق لها هكذا في النهر الفائق. ولا تجبر عليها في الصحيح لاحتمال عجزها إلا أن يكون له ذو رحم محرم غيرها فحينئذ تجبر على حضانته كي لا يضيع بخلاف الأب حيث يجبر على أخذه إذا امتنع بعد الاستغناء عن الأم كذا في العيني شرح الكنز، وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجة بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة، وإن علت، فإن لم يكن للأم أم فأم الأب أولى ممن سواها، وإن علت كذا في فتح القدير. ذكر الخصاف في النفقات إن كانت للصغيرة جدة من قبل أبيها وهي أم أبي أمها فهذه ليست بمنزلة من كانت من قرابة الأم من جهة أمها كذا في البحر الرائق.

، فإن ماتت أو تزوجت فالأخت لأب وأم، فإن ماتت أو تزوجت فالأخت لأم، فإن ماتت أوتزوجت فبنت الأخت لأب وأم، فإن ماتت أو تزوجت فبنت الأخت لأم لا تختلف الرواية في ترتيب هذه الجملة إنما اختلفت الروايات بعد هذا في الخالة والأخت لأب ففي رواية كتاب النكاح: الأخت لأب أولى من الخالة وفي رواية كتاب الطلاق: الخالة أولى وبنات الأخوات لأب وأم أو لأم أولى من الخالات في قولهم واختلفت الروايات في بنات الأخت لأب مع الخالة والصحيح أن الخالة أولى وأولى الخالات الخالة لأب وأم، ثم الخالة لأم، ثم الخالة لأب، وبنات الإخوة أولى من العمات والترتيب في العمات على نحو ما قلنا في الخالات كذا في فتاوى قاضي خان، ثم يدفع إلى خالة الأم لأب وأم، ثم لأم، ثم لأب، ثم إلى عماتها على هذا الترتيب."

( الباب السادس عشر فی الحضانة ،ج1،ص541،ط،دارالفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502102251

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں