بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو جیب خرچ دینے کا حکم / بیوی بچے اور بہن بھائیوں کا نان نفقہ کس کے ذمے ہے؟


سوال

1-اگر بیوی حاملہ ہو شوہر بیوی کی اکثر ضروریات زندگی پوری بھی کردیتا ہو  لیکن بیوی اس سے یہ مطالبہ کرتی ہو کہ مجھے  روزانہ کچھ رقم دے دیا کرو  جس کو  میں ایمرجنسی صورت میں خرچ کر سکوں،  اور  مستقبل کے خدشات  سے بچاؤ کے لیے میرے پاس کچھ رقم ہو، تو کیا بیوی کا یہ مطالبہ درست ہے؟  اگر شوہر اس کا یہ مطالبہ نہ ما نے تو اسلام میں شوہر کے بارے میں کیا حکم ہے ؟

2- مرد اپنی بیوی بچوں کے حقوق اور بنیادی ضروریات کو چھوڑ کر اپنی شادی شدہ بہن کی بےجا فرمائش پوری کرسکتا ہے؟ یا پھر اس پر یہ فرض ہے کہ پہلے وہ اپنی بیوی اور بچے کی ضرورت کا خیال رکھے پھر اس کے بعد بہن کی ضرورت یافرمائش    پوری کرے ؟ 

3-بیوی بچوں اور بہن بھائیوں کے حقوق کی ترتیب بھی بتا دیں ۔

جواب

1-واضح رہے کہ شوہر پر شرعا بیوی کا نان نفقہ واجب ہے، اور نان نفقہ سے مراد بقدرِ  کفایت  کھانے پینے، کپڑے، اور مکان کا انتظام کرنا ہے، نان نفقہ کے علاوہ الگ سے جیب خرچ شوہر پر لازم نہیں ہے، البتہ مستحب ہے کہ نان نفقہ کے علاوہ بھی الگ سے بیوی کو جیب خرچ دیا جائے، جس کو وہ اپنی مرضی سے جائز کام کےلئے  خرچ کر سکے۔

 صورتِ مسئولہ میں اگر شوہر اپنی بیوی کے نان نفقہ (بقدرِ کفایت کھانے پینے، کپڑے، اور مکان) کا انتظام کرتا ہو تو شوہر پر شرعا بیوی کو الگ سے جیب خرچ دینا لازم تو نہیں ہے، البتہ  رہائش ،کپڑے اور کھانے کےعلاوہ بھی بیوی کی ضروریات ہوتی ہیں اس لیے اچھا یہی ہے کہ  اس کو  الگ سے ماہوار   کچھ جیب خرچ بھی دیا جائے جس کو بیوی اپنی مرضی سے اپنی ضروریات میں استعمال کر سکتی ہو،  بیوی اس کو اپنے نان نفقہ کا حصہ سمجھ کر مطالبہ کرنے کی مجاز نہیں ہے،  شوہر  اگر نہیں دیتا تو اس کو  شرعا اسےملامت نہیں کیا جا سکتا۔

2-واضح رہے کہ ہر شخص اپنی جائیداد و املاک کا تنہا مالک ہوتا ہے، اور وہ  شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے اس میں  ہر طرح کا تصرف کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل اپنے بیوی بچوں کا نان نفقہ ادا کرتا ہے، تو شرعا اس کو اختیار ہے کہ اپنے مال کو جائز طریقے سے جہاں چاہے خرچ کرے، لہذا اگر وہ اپنی بہنوں پر خرچ کرتا ہے تو اس کے لیے شرعا اس طرح کرنا جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اگرچہ بہنیں شادی شدہ  ہوں، لیکن اگر وہ بیوی بچوں کے نان نفقہ کا  (بقدرِ کفایت کھانا پینا، کپڑے اور مکان) کا  انتظام  نہیں کرتا تو اس پر لازم ہے کہ پہلے بیوی بچوں کا نان نفقہ ادا کیا کرے پھر اگر اس کے پاس مال بچتا ہے تو اس کو بہنوں پر بھی خرچ کر سکتا ہے۔

3-بیوی کا نان نفقہ شوہر کے ذمے لازم ہے، اور بچوں کے پاس اگر اپنا ذاتی مال ہو تو ان کا نان نفقہ ان کے مال میں سے ادا کیا جائے گا، اگر ان کے پاس اپنا ذاتی مال نہ ہو تو لڑکوں کا نان نفقہ اس وقت تک والد کے ذمے لازم ہے جب تک لڑکے کمائی کے قابل نہ ہوجائیں، جب کمائی کے قابل ہو جائیں گے اور کمائی شروع کردیں گے تو ان کا نان نفقہ وہ خود برداشت کریں گے، اور لڑکیوں کا نان نفقہ ان کی شادیوں تک والد کے ذمے لازم ہے۔

بہن بھائیوں کا نان نفقہ تب بھائی پر لازم ہوتا ہے جب ان کا اپنا کوئی ذاتی مال نہ ہو، بھائی کمائی کے قابل نہ ہوں، ان کے اصول و فروع (اولاد اور آباء) میں سے کوئی صاحبِ حیثیت موجود نہ ہو ورنہ تو نان نفقہ ان پر ہوگا بھائی پر لازم نہیں ہوگا، اسی طرح بہنیں شادی شدہ نہ ہوں اگر شادی شدہ ہیں تو ان کا نان نفقہ شوہروں کے ذمے ہے، اور ان پر خرچ کرنے والے بھائی کے پاس اپنے اور اپنی بیوی بچوں کے نان نفقہ سے زائد مال بھی موجود ہو، اگر زائد مال نہ ہو تب بھی بھائی پر بہنوں اور بھائیوں کا نان نفقہ لازم نہیں ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وشرعا: (هي الطعام والكسوة والسكنى) وعرفا هي: الطعام (ونفقة الغير تجب على الغير بأسباب ثلاثة: زوجية، وقرابة، وملك) بدأ بالأول لمناسبة ما مر أو؛ لأنها أصل الولد (فتجب للزوجة) بنكاح صحيح، فلو بان فساده أو بطلانه رجع بما أخذته من النفقة بحر (على زوجها) ؛ لأنها جزاء الاحتباس."

(کتاب الطلاق، باب النفقات، ج:3، ص:572، ط:سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

" (وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الأنثى والجمع (الفقير) الحر، فإن نفقة المملوك على مالكه والغني في ماله الحاضر ... (قوله الفقير) أي إن لم يبلغ حد الكسب، فإن بلغه كان للأب أن يؤجره أو يدفعه في حرفة ليكتسب وينفق عليه من كسبه لو كان ذكرا، بخلاف الأنثى كما قدمه في الحضانة عن المؤيدية ."

(کتاب الطلاق، باب النفقۃ، مطلب الصغیر والمکتسب نفقۃ فی کسبہ لا علی ابیہ،3/612 ،ایچ ایم سعید)

مبسوط السرخسي ميں هے:

" والذي قلنا في الصغار من الأولاد كذلك في الكبار إذا كن إناثا؛ لأن النساء عاجزات عن الكسب؛ واستحقاق النفقة لعجز المنفق عليه عن كسبه. "

(کتاب النکاح، باب نفقۃ ذوی الارحام، ج:5، ص:223، ط:دارالمعرفۃ بیروت)

الموسوعہ الفقہیہ میں ہے:

"الحواشي هم الأقارب الذين ليسوا من عمودي النسب، كالإخوة وأبناء الإخوة والأخوال والخالات والأعمام والعمات ، وقد اختلف الفقهاء في نفقة الحواشي فمذهب الحنفية والحنابلة: أن النفقة تجب لهم في الجملة.....يشترط لوجوب نفقة الحواشي عند القائلين بها الشروط التي يجب توافرها في نفقة الأولاد وهي:

ا- أن يكون المنفق عليه فقيرا عاجزا عن الكسب، بسبب الصغر أو الأنوثة أو الزمانة أو العمى، لأنها أمارة الحاجة ولتحقق العجز، فإن القادر على الكسب غني بكسبه.

ب - أن يكون المنفق واجدا ما ينفقه فاضلا عن نفقة نفسه وعياله وخادمه."

(مادہ: نفقہ، نفقہ الحواشی، ج:41، ص:85، ط:طبع الوزارہ)

 حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ فرماتے ہیں: 

"بیوی کا یہ بھی حق ہےکہ اس کو کچھ رقم ایسی بھی دے جس کو وہ اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرسکے۔ اس کی تعداد اپنی بیوی اور اپنی حیثیت کے موافق ہوسکتی ہے."

(منتخب انمول موتی، ص:142، ادارہ تالیفات اشرفیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100472

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں