میں نے اپنی بیوی کو ڈرانے کے لیے میسج میں یہ لکھا تھا "طلاق" جب کہ میری نیت اس سے طلاق دینے کی نہیں تھی اور زبان سے طلاق کے الفاظ بھی استعمال نہیں کیے تھے،میرا خیال یہ تھا کہ زبان سے کہنے سے طلاق ہوتی ہے میسج سے نہیں، ہم دنوں دوبارہ ساتھ رہنا چاہتے ہیں،اب پوچھنایہ ہے کہ طلاق ہوگئی ہے یا نہیں ؟ اگر ہوگئی ہے تو رجوع کی گنجائش ہے یا نہیں ؟
صورتِ مسئولہ میں جب سائل نے میسج میں اپنی بیوی کو یہ لکھا تھا کہ"طلاق" تو اس سے سائل کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی ہے،سائل کو اپنی بیوی کی عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) میں رجوع کا حق حاصل ہے،اور اگر عدت گزر گئی ہے تو نئے مہر اور شرعی گواہوں کی موجود گی میں دوبارہ نکاح ہوسکتاہے،عدت میں رجوع کرنے یا تجدید نکاح کی صورت میں آئندہ کے لیے سائل کو دو طلاقوں کا اختیار حاصل ہوگا۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"بأن كتب أما بعد فأنت طالق فكلما كتب هذا يقع الطلاق و تلزمها العدة من وقت الكتابة."
(كتاب الطلاق،الباب،الباب الثاني في ايقاع الطلاق ج:1،ص:378،ط:رشيديه)
وفيه ايضا:
"و إذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية."
(كتاب الطلاق،الباب السادس في الرجعة ج:1،ص:470،ط:رشيديه)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144306100774
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن