بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسرے کی بیوی کے ساتھ زنا کرنے والے کا حکم


سوال

اگرزیدکی بیوی سے بکرزیادتی کرتاہے، اورزیداس وجہ سے بہت تکلیف اورکرب محسوس کرتاہے جبکہ بعض اوقات اللہ سے بھی بدکلامی کرڈالتاہے کہ میرے ساتھ ایساکیوں ہوا؟اب زیدکے لیے تویہ حکم ہے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے، لیکن اس طلاق میں اس کی معاشی ومعاشرتی زندگی ،بچوں کی زندگی اورخانگی زندگی تباہ ہوجاتی ہے،لیکن بکرکو اس پر کوئی سزانہیں ہے،کیوں کہ اس کے لیے 4گواہ ہونالازمی ہے تو شرعی طورپر بتائیں کہ کیابکرزیدکا مجرم ہے یانہیں ؟اوردنیاوآخرت میں اس کی (بکر)کی شرعی سزاہے یانہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر بکر کا جرم شرعی طریقے سے ثابت ہوجائے تو بکر زید کا بھی مجرم ہے اور عنداللہ بھی سخت گناہ گار ہوگا، نیز زید بذریعہ عدالت بکر پر شرعی سزا بھی جاری کرواسکتا ہے، لہذا یہ کہنا کہ بکر کو کوئی سزا نہیں ملے گی غلط ہے؛اس لیے کہ دنیا وی سزا کے ساتھ ساتھ بکر کا اخروی مؤاخذہ بھی  ہوگا جو دنیا کی سزا سے سخت ہوگا۔

قرآنِ مجید میں ہے:

"وَالّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَاۗىِٕكُمْ فَاسْتَشْهِدُوْا عَلَيْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْ ۚ فَاِنْ شَهِدُوْا فَاَمْسِكُوْھُنَّ فِي الْبُيُوْتِ حَتّٰى يَتَوَفّٰىھُنَّ الْمَوْتُ اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَھُنَّ سَبِيْلًا."

(سورۃ البقرۃ، رقم الآیة:15)

ترجمہ:"  اور جو عورتیں بیحیائی کا کام کریں تمہاری بیبیوں میں سے سو تم لوگ ان عورتوں پر چار آدمی اپنوں میں سے گواہ کرلو۔ سو اگر وہ گواہی دیدیں تو تم ان کو گھروں کے اندر مقید رکھو یہاں تک کہ موت ان کا خاتمہ کردے یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی اور راہ تجویز فرمادیں۔"(بیان القرآن)

قرآنِ مجید میں ہے:

"لَوْلَا جَاۗءُوْ عَلَيْهِ بِاَرْبَعَةِ شُهَدَاۗءَ  ۚ فَاِذْ لَمْ يَاْتُوْا بِالشُّهَدَاۗءِ فَاُولٰۗىِٕكَ عِنْدَ اللّٰهِ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ."

(سورۃ النور، رقم الآیة:13)

ترجمہ:"  (آگے اس حسن ظن کے وجوب کی وجہ ارشاد ہے کہ) یہ (قاذف) لوگ اس (اپنے قول) پر چار گواہ کیوں نہ لائے  سو جس صورت میں یہ لوگ (موافق قاعدہ کے) گواہ نہیں لائے تو بس اللہ کے نزدیک یہ جھوٹے ہیں۔"(بیان القرآن)

قرآنِ مجید میں ہے:

"وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ وَ لَمْ یَكُنْ لَّهُمْ شُهَدَآءُ اِلَّاۤ اَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ اَحَدِهِمْ اَرْبَعُ شَهٰدٰتٍۭ بِاللّٰهِۙ-اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۶)وَ الْخَامِسَةُ اَنَّ لَعْنَتَ اللّٰهِ عَلَیْهِ اِنْ كَانَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ(۷)وَ یَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْهَدَ اَرْبَعَ شَهٰدٰتٍۭ بِاللّٰهِۙ-اِنَّهٗ لَمِنَ الْكٰذِبِیْنَۙ(۸)وَ الْخَامِسَةَ اَنَّ غَضَبَ اللّٰهِ عَلَیْهَاۤ اِنْ كَانَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۹)."

اور جو لوگ اپنی بیبیوں کو تہمت لگائیں اور ان کے پاس بجز اپنے اور کوئی گواہ نہ ہوں تو ان کی شہادت یہی ہے کہ چار بار اللہ کی قسم کھا کر یہ کہ دے کہ بے شک میں سچا ہوں ،اور پانچویں بار یہ کہے کہ مجھ پر خدا کی لعنت ہو اگر میں جھوٹا ہوں، اور اس عورت سے سزا اس طرح ٹل سکتی  ہے کہ وہ چار بار قسم کھا کر کہے کہ بے شک یہ مرد جھوٹا ہے، اور پانچویں بار یہ کہے کہ مجھ پر خدا کا غضب ہو اگر یہ سچا ہو۔(بیان القرآن)

 

قرآنِ مجید میں ہے:

’’وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا‘‘ 

[سورة طه، رقم الآية: 124]

ترجمہ: ’’اور جو شخص میری اس نصیحت سے اعراض کرے گا تو اس کے لیے (قیامت سے پہلے دنیا میں قبر اور) تنگی کا جینا ہوگا۔‘‘ (بیان القرآن)

حدیث شریف میں ہے:

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنْ وَجَدْتُ مَعَ امْرَأَتِي رَجُلًا، أَؤُمْهِلُهُ حَتَّى آتِيَ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ؟ قَالَ: «نَعَمْ."

ترجمہ:" حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ (رضی اللہ عنہ) نے عرض کیا:  اے اللہ کے رسول! اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر آدمی کو پاؤں تو کیا میں اسے اتنی مہلت دوں کہ میں چار گواہ لے آؤں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: ہاں۔ "

(صحیح مسلم، کتاب اللعان، رقم الحدیث:1498، ج:2، ص:1135، ط:داراحیاء التراث العربی)

حدیث شریف میں ہے:

"عن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ادرءوا الحدود عن المسلمين ما استطعتم، فإن كان له مخرج فخلوا سبيله، فإن الإمام أن يخطئ في العفو خير من أن يخطئ في العقوبة."

ترجمہ: "حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جہاں تک ہوسکے مسلمانوں سے حدود کو دور کرو۔ اگر اس کے لیے کوئی راستہ ہو تو اس کا راستہ چھوڑ دو امام کا غلطی سے معاف کردینا غلطی سے سزا دینے سے بہتر ہے۔"

(سنن الترمذی، ابواب الحدود، باب ما جاء في درء الحدود، رقم الحدیث:1424، ج:3، ص:85، ط:دار الغرب الاسلامی)

فتاوی شامی  میں ہے:

"(ويثبت بشهادة أربعة) رجال (في مجلس واحد) فلو جاءوا متفرقين حدوا (ب) لفظ (الزنا لا) مجرد لفظ (الوطء والجماع) وظاهر الدرر أن ما يفيد معنى الزنا يقوم مقامه...(فيسألهم الإمام عنه ما هو) أي عن ذاته وهو الإيلاج عيني (وكيف هو وأين هو ومتى زنى وبمن زنى) لجواز كونه مكرها أو بدار الحرب أو في صباه أو بأمة ابنه، فيستقصي القاضي احتيالا للدرء (فإن بينوه وقالوا رأيناه وطئها في فرجها كالميل في المكحلة) هو زيادة بيان احتيالا للدرء (وعدلوا سرا وعلنا) إذا لم يعلم بحالهم.

قوله ويثبت) أي الزنا عند القاضي، أما ثبوته في نفسه فبإيجاد الإنسان له؛ لأنه فعل حسي نهر (قوله رجال) ؛ لأنه لا مدخل لشهادة النساء في الحدود، وقيد بذلك من إدخال التاء في العدد كما هو الواقع في النصوص (قوله فلو جاءوا متفرقين حدوا) أي حد القذف، ولو جاءوا فرادى وقعدوا مقعد الشهود وقام إلى القاضي واحد بعد واحد قبلت شهادتهم، وإن كانوا خارج المسجد حدوا جميعا بحر عن الظهيرية، وعبر بالمسجد؛ لأنه محل جلوس القاضي يعني أن اجتماعهم يعتبر في مجلس القاضي لا خارجه، فلو اجتمعوا خارجه ودخلوا عليه واحدا بعد واحد فهم متفرقون فيحدون (قوله بلفظ الزنا) متعلق بشهادة، فلو شهد رجلان أنه زنى وآخران أنه أقر بالزنا لم يحد، ولا تحد الشهود أيضا إلا إذا شهد ثلاثة بالزنا والرابع بالإقرار به فتحد الثلاثة ظهيرية؛ لأن شهادة الواحد بالإقرار لا تعتبر فبقي كلام الثلاثة قذفا بحر (قوله لا مجرد لفظ الوطء والجماع) ؛ لأن لفظ الزنا هو الدال على فعل الحرام دونهما، فلو شهدوا أنه وطئها وطئا محرما لا يثبت بحر: أي إلا إذا قال وطئا هو زنا."

(کتاب الحدود، ج:4، ص:07، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله لا يجب على الزوج تطليق الفاجرة) ولا عليها تسريح الفاجر إلا إذا خافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس أن يتفرقا اهـ مجتبى والفجور يعم الزنا وغيره وقد «قال - صلى الله عليه وسلم - لمن زوجته لا ترد ‌يد ‌لامس وقد قال إني أحبها: استمتع بها."

(كتاب الحظروالأباحة، ‌‌فرع: يكره إعطاء سائل المسجد إلا إذا لم يتخط رقاب الناس، ج:6، ص:417، ط:سعيد.)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408101254

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں