بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی اجنبی مردسے تعلق رکھنے کے بعد توبہ کرلے


سوال

ایک عورت غیرمرد سے غیر شرعی باتیں کرتی تھی جو اب  ظاہر ہوگئی ہیں جبکہ شوہر نے تنبیہ بھی کی ہو تو کیا اب اس عورت کو رکھنا یاچھوڑنا شرعاً کیسا ہے؟ جب کہ عورت نے توبہ کرلی ہے۔

جواب

 صورتِ مسئولہ میں مذکورہ  عورت نے آئندہ کے لیے توبہ کرلی ہے  تو شوہر کو بھی  چاہیئے کہ اس کو معاف کردے اور اپنے نکاح کو ختم نہ کرے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ تمام بنی آدم خطا کار ہیں اور بہترین خطا کار وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں،البتہ آئندہ کےلیے مذکورہ شخص اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اپنی بیوی کی تربیت بھی کرے،اس بات کی کوشش کرے کہ بیوی کو کسی غیر مرد سے بلاضرورت بات کرنے کاموقع ہی نہ دے کہ شرعاً شوہر کی ذمہ داری ہے کہ اپنے گھر والوں کی کڑی نگہبانی کرے تاکہ وہ گناہوں سے محفوظ رہیں۔

قرآن کریم ارشادی باری تعالیٰ ہے:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا."(آیۃ:6)

ترجمہ:"اے ایمان والو تم اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو (دوزخ کی) اس آگ سے بچاؤ (از بیان القرآن)"

صحیح مسلم میں  حدیث مبارک ہے:

"عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «ألا ‌كلكم ‌راع، وكلكم مسئول عن رعيته، فالأمير الذي على الناس راع، وهو مسئول عن رعيته، والرجل راع على أهل بيته، وهو مسئول عنهم، والمرأة راعية على بيت بعلها وولده، وهي مسئولة عنهم، والعبد راع على مال سيده وهو مسئول عنه، ألا فكلكم راع، وكلكم مسئول عن رعيته»."

(كتاب الإمارة،باب فضيلة الإمام العادل،ج:3،ص:1459،الرقم:1829،ط:دارأحياءالتراث العربي)

ترجمہ:"حضرت ابن عمر  ؓ  سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا آگاہ رہو تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور تم سب سے ان کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا پس وہ امیر جو لوگوں کا ذمہ دار ہے اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا اور جو آدمی اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے اس سے ان کے بارے میں سوال کیا جائے اور عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد کی ذمہ دار ہے اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا اور غلام اپنے آقا کے مال کا ذمہ دار ہے اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا آگاہ رہو تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔"

تہذیب نفع المفتی  والسائل میں ہے:

"إذا اعتادت الزوجة الفسق، علیه الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، والضرب فیما یجوز فیه؛ فإن لم تنزجر لایجب التطلیق علیه؛ لأن الزوج قد أدی حق والإثم علیها، هذا ما اقتضاه الشرع، وأما مقتضی غایة التقویٰ فهو أن یطلقها، لکن جواز الطلاق إنما هو إذا قدر علی أداء المهر وإلا فلایطلقها."

(کتاب الحظر وإباحت،مايتعلق بإطاعة الزوجات للأزواج،ص:444،ط:دارالفاروق) 

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144405100397

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں