بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ، 4 بیٹے 7 بیٹیوں کے درمیان تقسیم ترکہ


سوال

میرےوالد کا انتقال 2020 میں ہوا، والد کی وفات کے وقت تمام جائیدادوں  کا جب ہم نے حساب لگایا تو تقریباً7201500روپے بنتے تھے، ہم 4بھائ اور 7 بہنیں ہیں، دو بڑی  بہنو ں سے ہم نے اس وقت پوچھاتھا کہ: آپ لوگ کیا چاہتی ہیں؟ میراث لیں گی یا نہیں؟ انہوں نے  جواب میں کہا: ہم نہ میراث لیں گے اور نہ ہی چھوڑیں گے، اب والد کے ترکہ  کےمال میں یا تو اضافہ ہوا ہے یا تو کمی ہوئی ہے۔

تو اب سوال یہ ہے کہ میراث کی  تقسیم کیسے کریں؟ورثاء میں بیوہ، 4 بیٹے اور 7 بیٹیاں ہیں۔

2020میں  جو ترکہ کی قیمت تھی  اس وقت کے اعتبار سے حساب لگایا جاۓ یا ابھی کے حساب سے ؟ مثلاً اب بہنوں کا حق اضافی مال میں ہے یا نہیں؟ اور کیا یہ جائز ہے کہ مکان یا کار کی قیمت معلوم کرکے میراث میں قیمت دےدی جاۓ؟

جواب

صورت مسئولہ میں والد کے انتقال کے وقت جو چیزیں ان کی ملکیت میں تھیں  اور آج تک جو  نفع وغیرہ اس میں اضافہ ہوا ہے، وہ سب  والدکی میراث   شمار ہوکر سب ورثاء( والدہ تمام بہن بھائیوں ) کے درمیان شرعی طور پر تقسیم ہوگا۔

مرحوم والد (اگر ان کے والدین میں سے کوئی بھی زندہ نہ ہو)کے  ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ  مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی کفن دفن کے اخراجات نکالنے کے بعد، اگر مرحوم  کے ذمہ کوئی  قرض ہو، تو  اسے ادا کرنے کے بعد اور  اگر مرحوم نے کوئی   جائز وصیت کی ہو تو  باقی ترکہ کے  ایک تہائی میں  اسے نافذ کرنے   کے بعد باقی ترکہ کو120حصے کرکے 15 حصے  مرحوم کی بیوہ کو،14حصے کرکے ہر ایک بیٹے کو 7حصے کر کے  ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت:مرحوم والد، مسئلہ:120/8 

بیوہبیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
17
15141414147777777

یعنی 100 روپے میں سے 12.5 روپے مرحوم کی بیوہ کو،11.666روپے اس کے ہر ایک بیٹے کو اور 5.833روپے اس کی ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"تقسيم ‌حاصلات ‌الأموال ‌المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم. فلذلك إذا شرط لأحد الشركاء حصة أكثر من حصته من لبن الحيوان المشترك أو نتاجه لا يصح) تقسم ‌حاصلات ‌الأموال ‌المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم، يعني إذا كانت حصص الشريكين متساوية أي مشتركة مناصفة فتقسم بالتساوي وإذا لم تكن متساوية بأن يكون لأحدهما الثلث وللآخر الثلثان فتقسم الحاصلات على هذه النسبة؛ لأن نفقات هذه الأموال هي بنسبة حصصهما."

[الكتاب العاشر: الشركات، ج:3، ص:26، ط:دار الجيل]

تكملة حاشية ابن عابدين میں ہے:

"التركة في الاصطلاح ‌ما ‌تركه ‌الميت من الأموال صافيا عن تعلق حق الغير بعين من الأموال كما في شروح السراجية."

[کتاب الفرائض، ج:7، ص:350، ط:سعید]

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100259

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں