بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی سے کہنا کہ اگر وہ اپنے والدین کے گھر گئی توطلاق ہے اور پھر جانے کی اجازت دے دے


سوال

 میری بیوی بہت اچھی ہے اور میں بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہوں،ہمارے اوپر کسی نے جادو کرایا ہے جس کا علاج چل رہا ہے، جادو میں یہ ہے کہ میرے کاروبار کو بند کرانے اور میری بیوی کو مجھ سے الگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو علاج کررہے ہیں وہ میری مسجد کے امام ہیں جو دیوبند سے فراغت شدہ ہیں اور جعلی عامل نہیں ہیں ، میری اپنی بیوی سےلڑائی ہوئی اور میں نے اسے یہ قید لگا دی کہ " اگر وہ اپنے والدین کے گھر گئی تو طلاق ہے" یہ میں نے ایک دفعہ بولا ہے۔ اب مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ اگر  میں اسے گھر جانے کی  اجازت  دے دیتا ہو ں اور وہ جاتی ہے تو کیا ایک طلاق واقع ہو جائے گی؟ مطلب اگر میں ہی قید ختم کر دیتا ہوں تو کیا قید ختم ہو جائے گی ؟ دوسرا جو مجھے میری بیوی سے لڑایا جا رہا ہے وہ صاف نظر آرہا ہے کہ جب میں گھر کے اندر قدم رکھوں تو لڑائی ہو رہی ہوتی ہے اور لڑائی کے دوران فوراً اگر  میں باہر قدم رکھوں تومجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں اب کسی کے کنٹرول سے باہر ہو گیا ہوں، اور یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ جس بات پہ لڑائی ہو رہی تھی وہ بات ہی کچھ نہیں تھی، اسی دوران اگر میں گھر میں واپس داخل ہوں تو پھر  سے  لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔ مہربانی کر کے رہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں   چوں کہ سائل نے لڑائی کے دوران اپنی بیوی سے یہ الفاظ کہے ہیں کہ" اگر وہ اپنے والدین کے گھر گئی تو طلاق ہے"، اس کے بعدبیوی  سائل کی اجازت کے بعدبھی والدین کے گھر جائےگی تو بھی اسے ایک طلاق رجعی واقع ہوجائے گی،اب مذکورہ  مسئلہ  کا  حل یہ ہے کہ بیوی اپنے والدین کے گھر چلی جائے، جب بیوی والدین کے گھر چلی جائےگی تو اسے ایک طلاق رجعی واقع ہوجائے گی  ،پھر سائل  عدّت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک)  کے دوران رجوع کرلے،نکاح برقرار رہے گا،اور آئندہ کے لیے شوہر کو دو طلاقوں کا حق ہوگا ۔اس کے بعدبیوی اگر دوبارہ والدین کے گھر جائے گی تو  مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقاً، مثل أن يقول لإمراته: إن دخلت الدار فأنت طالق" .

  (فتاوی ہندیہ، کتاب الطلاق، الباب الرابع، الفصل الثالث فی تعلیق الطلاق بکلمۃ ٳن وٳذا وغیرہما، ج:۱،ص:۴۲۰،ط:دار الفکر)

وفيه أيضاً:

"وإذا طلّق الرجل امرأته تطليقةً رجعيةًّ أو ‌تطليقتين فله أن يراجعها في عدّتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية".

(فتاوی ہندیہ، کتاب الطلاق، الباب السادس فی الرجعۃ، ج:۱،ص:۴۷۰،ط:رشیدیہ)

فقظ واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307200067

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں