ایک شحص نے یہ کہا کہ ’’میں نے اگرکسی غیرمحرم عورت سے زنا کیا تو میرے اوپر میری بیوی تین طلاق ہے‘‘، اب اس نے غیرمحرم عورتوں سے زنا نہیں کیا، لیکن وہ اپنی بیوی کے ساتھ ہمبستری کے دوران غیرمحرم عورتوں کے ساتھ زنا کرنے کے خیالات لاتا ہے، یا اگر اسے غیرمحرم عورتوں کے خیالات آتے ہیں، تو اس پر وہ اپنی بیگم سے خواہش پوری کرلیتاہے، اس وجہ سے وہ پریشان ہے کہ یہ میں جوکررہاہوں اس سے میرے اوپر بیوی کو طلاق تو نہیں ہوئی ہے؟
آپ راہ نمائی فرمائیں۔
بصورتِ مسئولہ بیوی سے صحبت کے وقت کسی غیرمحرم عورت کا خیال اور اس کا تصور اپنے دماغ میں لاناانتہائی بے حیائی اور سخت گناہ ہے، حتیٰ کہ بعض حضرات نے اس کو زنا ہی کی ایک قسم قرار دیا ہے۔
تاہم چوں کہ یہ فعل انتہائی بےہودہ ہونے کے باوجود حقیقی زنا نہیں ہے؛ اس لیے ایسا کرنے سے اس کی بیوی پر کوئی طلاق تو واقع نہیں ہوگی، البتہ اس قسم کے تصور سے بہرصورت اجتناب لازم ہے۔
الأشباه والنظائر میں ہے:
"الأيمان مبنية على الألفاظ لا على الأغراض."
(ص:١٥٥، کتاب الأيمان، الفن الثاني،ط: دار الكتب العلمية)
حاشية ابن عابدين میں ہے:
"ذكر بعض الشافعية أنه كما يحرم النظر لما لا يحل يحرم التفكر فيه . . . وذكر العلامة ابن حجر في التحفة أنه ليس منه ما لو وطئ حليلته متفكرا في محاسن أجنبية حتى خيل إليه أنه يطؤها . . . وقال ابن الحاج المالكي: إنه يحرم لأنه نوع من الزنا كما قال علماؤنا فيمن أخذ كوزا يشرب منه، فتصور بين عينيه أنه خمر فشربه أن ذلك الماء يصير حراما عليه . . . ولم أر من تعرض للمسألة عندنا وإنما قال في الدرر: إذا شرب الماء وغيره من المباحات بلهو وطرب على هيئة الفسقة حرم اهـ والأقرب لقواعد مذهبنا عدم الحل، لأن تصور تلك الأجنبية بين يديه يطؤها فيه تصوير مباشرة المعصية على هيئتها، فهو نظير مسألة الشرب ثم رأيت صاحب تبيين المحارم من علمائنا نقل عبارة ابن الحاج المالكي، وأقرها وفي آخرها حديث عنه صلى الله عليه وسلم إذا شرب العبد الماء على شبه المسكر كان ذلك عليه حراما اهـ."
(ص:٣٧٢، ج:٦، کتاب الحظر والإباحة، فصل في النظر والمس، ط: ايج ايم سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144509100503
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن