بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی پسند نہ ہو تو اسے طلاق دینے کا حکم


سوال

شوہر کو بیوی پسند نہ ہونے کی وجہ سے طلاق دینا کیسا ہے ؟ کوئی ظلم تو نہیں ہے ؟

جواب

ازدواجی رشتہ چونکہ دائمی رشتہ ہوتا ہے، لہذا شریعتِ مطہرہ میں نکاح سے پہلے جائز حدود میں رہتے ہوئے  لڑکے اور لڑکی میں مناسبت کے لیے بہت سے اہم امور کا لحاظ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے مثلاً کفو (برابری)، گھر کی معتمد خواتین کے ذریعے یا خود ایک نظر دیکھ کر لڑکی کا حلیہ معلوم کرنا وغیرہ۔ جتنی زیادہ باہمی مناسبت ہوگی، اتنا ہی نکاح کے بعد اچھی زندگی کی امید ہوتی ہے، تاہم دینداری ایسی چیز ہے کہ اگر اس کو بنیاد بنا کر ازدواجی رشتے سے منسلک ہوا جائے اور آئندہ زندگی کو گزارا جائے تو یہ سب سے بہتر طریقہ ہے چنانچہ ایک حدیث میں ہے :

" عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " تنكح المرأة لأربع: لمالها، ولحسبها، ولجمالها، ولدينها، فاظفر بذات الدين تربت يداك۔" 

[صحيح مسلم (2/ 1086، دار احیاء التراث العربی)]

ترجمہ :  نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا عورت سے چار وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے اس کے مال کی وجہ سے، شرافت کی وجہ سے، اس کی خوبصورتی کی وجہ سے، اس کی دینداری کی وجہ سے، تو حاصل کر دیندار عورت کے ساتھ کامیابی، تیرے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں۔

مذکورہ تفصیل کے بعد واضح ہو کہ یہ تمام تفصیلات نکاح سے پہلے کی ہیں، نکاح کے بعد پسند آنے یا نہ آنے کو معیار بنانے کی بجائے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ کرنی چاہیے، جب میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال کریں گے تو دینداری کی وجہ سے رشتے میں برکت ہوگی اور  جدائیگی کے خیالات نہیں ا ٓئیں گے۔

سائل نے بیوی پسند نہ ہونے کی وجہ کی وضاحت نہیں کی، تاہم اگر بیوی بغیر کسی  وجہ کے پسند نہ ہو تو اسے طلاق دینا ناجائز اور ظلم ہے اس لیے کہ نکاح کو دینی اور دنیوی مصلحتوں کے لیے مشروع کیا گیا ہے اور طلاق دینے سے وہ مصلحتیں فوت ہوجاتی ہیں، نیز  اس سے لڑکی کو، اس کے گھر والوں کو اور اس کی اولاد کو ایذاء ہوگی۔

قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں بیوی کے حقوق  کی بہت تاکیدوارد ہوئی ہے ،چنانچہ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

" { فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا}" [النساء: 34]

ترجمہ : پھر اگر وہ تمھاری فرماں برداری کریں تو ان پر (زیادتی کا) کوئی راستہ تلاش نہ کرو، بے شک اللہ ہمیشہ سے بہت بلند، بہت بڑا ہے۔

"﴿ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا﴾"[النساء: 19]

ترجمہ: اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی  کے  ساتھ گزران کرو،  اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو  ممکن ہے  کہ تم ایک شے  کو ناپسند کرو  اور اللہ تعالیٰ اس کے اندر  کوئی  بڑی منفعت رکھ دے۔(ازبیان القرآن)

   حدیث مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقاً، وخياركم خياركم لنسائهم» . رواه الترمذي".

(مشکاۃ المصابیح، 2/282،  باب عشرۃ النساء، ط؛ قدیمی)

ترجمہ: رسول کریم ﷺ نے فرمایا: مؤمنین میں سے  کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جو ان میں سے بہت زیادہ خوش اخلاق ہو،  اور تم  میں بہتر وہ شخص ہے جو  اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہے۔

(مظاہر حق، 3/370، ط:  دارالاشاعت)

ایک اور حدیث مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي".

(مشکاۃ المصابیح، 2/281،  باب عشرۃ النساء، ط: قدیمی)

ترجمہ:رسول کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل (بیوی، بچوں، اقرباء اور خدمت گزاروں) کے حق میں بہترین ہو، اور میں اپنے اہل کے حق میں تم میں  بہترین ہوں۔

(مظاہر حق، 3/365، ط:  دارالاشاعت)

ایک اور حدیث مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لايفرك مؤمن مؤمنةً إن كره منها خلقاً رضي منها آخر» . رواه مسلم".

(مشکاۃ المصابیح، 2/280،  باب عشرۃ النساء، ط: قدیمی)

ترجمہ: رسول کریم ﷺ نے فرمایا: کوئی مسلمان مرد کسی مسلمان عورت سے بغض نہ رکھے،  اگر  اس کی نظر میں اس عورت کی کوئی  خصلت وعادت ناپسندیدہ ہوگی  تو  کوئی دوسری خصلت وعادت پسندیدہ بھی ہوگی۔

(مظاہر حق، 3/354، ط: دارالاشاعت)

 

لہذا شوہر کو چاہیےکہ وہ اپنی بیوی کو صرف پسند نہ آنے کی وجہ سے  طلاق نہ دے، تاہم اگر کوئی شرعی وجہ ہو طلاق دینے کی تو اس کی وضاحت کرکے دوبارہ سوال کرلیں۔

فتاوی شامی میں ہے :

"  وأما الطلاق فإن الأصل فيه الحظر، بمعنى أنه محظور إلا لعارض يبيحه، وهو معنى قولهم الأصل فيه الحظر والإباحة للحاجة إلى الخلاص، فإذا كان بلا سبب أصلا لم يكن فيه حاجة إلى الخلاص بل يكون حمقا وسفاهة رأي ومجرد كفران النعمة وإخلاص الإيذاء بها وبأهلها وأولادها، ولهذا قالوا: إن سببه الحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله تعالى، فليست الحاجة مختصة بالكبر والريبة كما قيل، بل هي أعم كما اختاره في الفتح، فحيث تجرد عن الحاجة المبيحة له شرعا يبقى على أصله من الحظر، ولهذا قال تعالى {فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا} [النساء: 34] أي لا تطلبوا الفراق، وعليه حديث «أبغض الحلال إلى الله الطلاق» قال في الفتح: ويحمل لفظ المباح على ما أبيح في بعض الأوقات أعني أوقات تحقق الحاجة المبيحة اهـ وإذا وجدت الحاجة المذكورة أبيح وعليها يحمل ما وقع منه - صلى الله عليه وسلم - ومن أصحابه وغيرهم من الأئمة صونا لهم عن العبث والإيذاء بلا سبب، فقوله في البحر إن الحق إباحته لغير حاجة طلبا للخلاص منها، إن أراد بالخلاص منها الخلاص بلا سبب كما هو المتبادر منه فهو ممنوع لمخالفته لقولهم إن إباحته للحاجة إلى الخلاص، فلم يبيحوه إلا عند الحاجة إليه لا عند مجرد إرادة الخلاص وإن أراد الخلاص عند الحاجة إليه فهو المطلوب، وقوله في البحر أيضا إن ما صححه في الفتح اختيار للقول الضعيف وليس المذهب عن علمائنا فيه نظر لأن الضعيف هو عدم إباحته إلا لكبر أو ريبة. "

(۳ ؍ ۲۲۸، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100304

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں