اسلامی اور اخلاقی طور پر بیوی کا اپنی ساس اور سسر پر کتنا حق ہے؟ اور کیا اسلامی اور مذہبی طور پر ایک بیوی اپنے شوہر کے ماں باپ کی خدمت گزاری پر پابند ہے یا نہیں؟
ساس، سسر کی خدمت کرنا شرعاً واجب نہیں ہے، لیکن شوہر کے والدین کو اپنے والدین کی طرح سمجھتے ہوئے ان کی خدمت کو اپنی سعادت خیال کرنا چاہیے، اگر صرف ضابطوں کو دیکھا جائے تو بہت سارے ایسے حقوق بھی ہیں جو شرعاًشوہر پر لازم نہیں ہوتے لیکن پھر بھی وہ بیوی کو یہ حقوق فراہم کرتا رہتا ہے، لہذا میاں بیوی کے رشتے کو ضابطوں سے چلانے کی بجائے پیار و محبت سے چلایا جائے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وكذا تجب لها السكنى في بيت خال عن أهله) سوى طفله الذي لا يفهم الجماع وأمته وأم ولده (وأهلها) ولو ولدها من غيره (بقدر حالهما) كطعام وكسوة وبيت منفرد من دار له غلق. زاد في الاختيار والعيني: ومرافق، ومراده لزوم كنيف ومطبخ، وينبغي الإفتاء به بحر (كفاها) لحصول المقصود هداية."
(کتاب الطلاق،باب النفقہ،مطلب فی مسکن الزوجہ،599/600/3،ط:سعید)
کفایت المفتی میں ہے:
’’سوال:زید اپنی زوجہ سے کہتاہے کہ کہ میرے ماں،باپ،بھائی ،بہن وغیرہ کا حقِ خدمت شرعی حکم سے اگر تمہارے ذمہ ہے تو ادا کرنا چاہیے۔زید کی زوجہ کہتی ہےکہ اللہ تعالی کا حکم قرآن مجید میں اور اللہ تعالی کے رسول کا حکم حدیث شریف میں مجھے دکھلائیے،کہ بہ دل و جان خدمت بجا لاؤں۔
جواب:زید کے والدین کا ادب و احترام اور معمولی خدمت جس میں زوجہ پر کوئی مشقت اور تکلیف نہ ہو،کرنی بہتر ہے،اس سے زیادہ زوجہ کے ذمہ لازم نہیں۔‘‘
(باب العشیرۃ بین الزوجین و حقوقھما،411/12،ط:ادارۃ الفاروق کراچی)
فقط واللہ اعلم ــ
فتوی نمبر : 144511102096
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن