بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی اور بالغ اولاد کے نان نفقہ کا حکم


سوال

2016 میں ایک جرگہ کے دوران میرا اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ یہ معاہدہ ہوا کہ ہر ماہ 6 ہزار روپے میں بیوی کے اکاؤنٹ میں ڈالوں گا، اس کے بعد سے میں اس کے اکاؤنٹ میں خرچہ بھیجتا رہا جو 46 ہزار روپے تک بنتے ہیں، پھر اس کے بعد سے اکاؤنٹ کے علاوہ بھی میں خرچہ بھیجتا رہا ہوں، لیکن اب میری بیوی اور بچوں نے عدالت میں یہ درخواست دے دی ہے کہ اس نے ہمیں خرچہ نہیں دیا ہے اور میرے بھیجے ہوئے پیسوں کا انکار بھی کررہے ہیں، جب کہ بیوی میرے نکاح میں ہے اور میرے گھر میں ہے اور میں اسے کھانا پینا وغیرہ سب کچھ دیتا ہوں اور بچے بھی سب بالغ ہیں، کیا میری بیوی بچوں کا یہ دعوی کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں اور بچوں کا خرچہ مجھ پر لازم ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کا بیان اگر واقعۃً صحیح اور درست ہے کہ اس کی بیوی اس کے ساتھ رہتی ہے، اس کو کھانے پینے کے لیے بھی سب کچھ دیتا ہے، اس کے باوجود سائل کی بیوی اور بچے الگ سے مقرر کردہ ماہانہ 6 ہزار روپے کا مطالبہ کرتے ہیں اور الگ سے نفقہ کے دیے ہوئے پیسوں کا انکار کرتے ہیں تو شرعاً سائل پرصرف  نان نفقہ لازم ہے،جو کہ وہ ادا کررہا ہے، الگ سے ماہانہ 6 ہزار روپے دینا سائل پرلازم نہیں، لہٰذا ان کے دعوی کا شرعاً کوئی اعتبار نہیں۔

باقی سائل کے بچے  چوں کہ سب بالغ ہیں تو ان میں سے لڑکیوں کا نان نفقہ بعد البلوغ بھی ان کی شادی ہونے تک سائل کے ذمہ ہے اور لڑکے اگر کمانے کے قابل ہیں تو ان  کا نان نفقہ خود ان پر ہے ، سائل کے ذمہ نہیں، تاہم لڑکوں کے بالغ ہونے اور کمانے کے قابل ہونے کے باوجود، اس کے بعد بھی سائل اگر اپنے  بچوں کا نان نفقہ ادا کرے تو یہ سائل کی طرف سے احسان اور تبرع ہوگا۔

البحر الرائق میں ہے:

"لما في الذخيرة وغيرها من أنه ليس في النفقة عندنا تقدير لازم، لأن المقصود من النفقة الكفاية، وذلك مما يختلف فيه طباع الناس وأحوالهم، ويختلف باختلاف الأوقات أيضا، ففي التقدير بمقدار إضرار بأحدهما."

(ج:4، ص:190، كتاب الطلاق، باب النفقة، دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والنفقة الواجبة المأكول والملبوس والسكنى."

(ج:1، ص:549، كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الأول في نفقة الزوجة، ط:رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(والحاضنة) أما أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء، وقدر بسبع، وبه يفتى، لأنه الغالب ... (والأم والجدة) لأم أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية ... (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع، وبه يفتى ... (وعن محمد أن الحكم في الأم والجدة كذلك) وبه يفتى، لكثرة الفساد، زيلعي.

وفي الرد: (قوله: كذلك) أي في كونها أحق بها حتى تشتهى. (قوله: وبه يفتى) قال في البحر بعد نقل تصحيحه: والحاصل أن الفتوى على خلاف ظاهر الرواية."

(ج:3، ص:566/ 567، باب الحضانة، ط:سعید)

وایضاً:

"(وكذا) تجب (لولده الكبير العاجز عن الكسب)  كأنثى مطلقا."

(ج:3، ص:614، کتاب الطلاق، باب النفقة، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307100030

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں