بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے پیسوں سے بیوی کے لیے گھر خریدا تو کون مالک ہے؟


سوال

میرے والد کا انتقال ہوا،ترکہ میں دو گھر ہیں، جس میں سے ایک گھر میں ہم آخر تک والد صاحب کے ساتھ رہتے تھےاور یہ گھر والد ہ کے نام ہے۔البتہ ایک دوسرا فلیٹ جس کی مالیت تقریبا 12 لاکھ روپے ہے،یہ فلیٹ والد نے والدہ کے پیسوں سے   والدہ ہی کے نام پر انہیں مالک بنانے کی  غرض سے لیا تھا،سیل ایگریمنٹ بھی والدہ کے نام بنوایا،البتہ خریدتے وقت کچھ پیسے والد نے بطور معاونت خود بھی ملائے تھے،اس فلیٹ کے کاغذات ،اس کا کرایہ بھی والدہ ہی لیتی رہی ہیں،اس فلیٹ کے تمام مالکانہ حقوق(کس کرایہ دار کو رکھنا ہے نہیں رکھنا)خریدنے کے بعد سے  والدہ کے پاس ہیں۔

دوسوال مطلوب ہیں:

1.مرحوم والد کے ورثاء میں بیوہ،ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں(والدین حیات نہیں)ان ورثاء میں ترکہ کس طرح تقسیم ہوگا؟برابر یا سب کا علیحدہ علیحدہ حصہ ہے۔

2.دوسرا فلیٹ جو مکمل والدہ کے پاس ہے شروع سے کرایہ پر ہے اور کرایہ بھی والدہ ہی لیتی رہی ہیں وہ مرحوم کے ترکہ میں شامل ہوگا یا والدہ کی ملکیت ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے  مرحوم  والدکے ترکہ کی تقسیم کی شرعی صورت یہ ہے کہ  مرحوم کے کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ میں سے سب سے پہلے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی کفن دفن کا خرچہ نکالنے کے بعد ،اگر مرحوم کے ذمہ  کوئی قرض ہو تو کل ترکہ سے قرض ادا کرنے کے بعد،اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہوتو ایک تہائی مال سے وصیت نافذ کرنے کےبعد باقی کل ترکہ   کو۴۰ حصوں میں تقسیم کرکے بیوہ کو ۵حصے ،بیٹے کو ۱۴ حصے اور ہر ایک بیٹی کو ۷ حصے ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے۔

میت: 40/8

بیوہبیٹابیٹیبیٹیبیٹی
1

7

514777

فیصد کے تناسب سے  بیوہ کو 12.50فیصد،بیٹے کو35فیصد اور ہر ایک بیٹی کو17.50فیصد حصہ ملے گا۔

1.کل تر کہ کو تمام ورثاء میں برابر تقسیم نہیں کیا جائے گا،بلکہ  تمام ورثاء میں  اوپر ذکر کردہ  شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم کیا جائے۔

2.جو فلیٹ سائل  کے مرحوم  والد نے والدہ کی رقم سے والدہ کے لیے خریدا تھا (اگرچہ خریدتے وقت کچھ رقم بطور معاونت والد نے بھی شامل کی تھی) تو یہ گھر والدہ کی ملکیت ہے،سائل کے مرحوم والد کے ترکہ میں شامل نہیں ہے۔ 

مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:

"المادة (1461) لا يشترط إضافة العقد إلى الموكل في البيع والشراء والإجارة والصلح عن إقرار , فإن لم يضفه إلى موكله واكتفى بإضافته إلى نفسه صح أيضا , وعلى كلتا الصورتين لا تثبت الملكية إلا لموكله , ولكن إن لم يضف العقد إلى الموكل تعود حقوق العقد إلى العاقد يعني الوكيل , وإن أضيف إلى الموكل ويكون الوكيل بهذه الصورة كالرسول۔"

(کتاب الوکالۃ،باب فی احکام الوکالۃ،ص۲۸۴،ط؛نور محمد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100383

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں