بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے نفقہ کی ذمہ داری شوہر پر ہے


سوال

میری پسند کی شادی ہوئی،میرےسسر دل سے راضی تھے،میری رخصتی سے پہلے میرے سسر کا انتقال ہو گیامیری رخصتی ہو گئی میرے خاوند ابھی پڑھائی کر رہے ہیں،ان کا روزگار نہیں ہے،گھرایک دیور اور ساس کی پنشن سے چل رہا ہے، سب خرچے پورے ہو رہے ہیں، لیکن مجھے آج تک کبھی خرچا نہیں دیا اور نہ ہی آئندہ دینے کا ان کا کوئی ارادہ لگتا ہے،تو میں دل میں ساس سے افسردہ ہوتی ہوں کہ گھر کی بڑی وہ ہیں اگر ہر ماہ مجھے پانچ سو یا ہزار دیں ان کا کیا جائے گا،تو کیامیرے دل میں ساس کےبارےمیں افسردگی جائز ہے؟یا ان کا کوئی حق نہیں شریعت کی رو سے،مہربانی فرما کےمیری راہ نمائی کریں میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے میرا سارا خرچہ میری ماں دیتی ہیں ،لیکن میں دل میں شرمندہ ہوں میری ماں کب تک مجھے دیں گی۔

جواب

واضح رہے کہ شوہر پر شرعاً بیوی کا نان و نفقہ واجب ہے، اور نان و نفقہ سے مراد بقدرِ  کفایت  کھانے پینے، کپڑے، اور مکان کا انتظام کرنا ہے، نان و نفقہ کے علاوہ الگ سے جیب خرچ شوہر پر لازم نہیں ہے، البتہ مستحب ہے کہ نان و نفقہ کے علاوہ بھی الگ سے بیوی کو جیب خرچ دیا جائے، جس کو وہ اپنی مرضی سے جائز کام کےلئے  خرچ کر سکے۔

 صورتِ مسئولہ میں اگر شوہر یا اس کی طرف سےکوئی اور سائلہ کے نان نفقہ (بقدرِ کفایت کھانے پینے، کپڑے، اور مکان) کا انتظام کرتا ہو تو شوہر پر شرعاً بیوی کو الگ سے جیب خرچ دینا لازم تو نہیں ہے، البتہ  رہائش ،کپڑے اور کھانے کےعلاوہ بھی بیوی کی ضروریات ہوتی ہیں اس لیے اچھا یہی ہے کہ  اس کو  الگ سے ماہوار   کچھ جیب خرچ بھی دیا جائے جس کو بیوی اپنی مرضی سے اپنی ضروریات میں استعمال کر سکتی ہو،  بیوی اس کو اپنے نان و نفقہ کا حصہ سمجھ کر مطالبہ کرنے کی مجاز نہیں ہے،  شوہر  اگر نہیں دیتا تو اس کو  شرعا اسےملامت نہیں کیا جا سکتا،لہذاجب سائلہ کی ضروریات اچھےطریقہ سےپوری ہورہی ہیں توسائلہ کےلیےاپنےشوہریااپنی ساس کےبارےمیں دل میں افسردگی پیدا نہ کرے بلکہ شوہر کے پڑھائی ختم ہونے کا انتظار کرے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وشرعا: (هي الطعام والكسوة والسكنى) وعرفا هي: الطعام (ونفقة الغير تجب على الغير بأسباب ثلاثة: زوجية، وقرابة، وملك) بدأ بالأول لمناسبة ما مر أو؛ لأنها أصل الولد (فتجب للزوجة) بنكاح صحيح، فلو بان فساده أو بطلانه رجع بما أخذته من النفقة بحر (على زوجها) ؛ لأنها جزاء الاحتباس."

(کتاب الطلاق، باب النفقات، 3 /572، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"تجب علی الرجل نفقة امرأته المسلمة والذمیة والفقیرة والغنیة دخل بها أو لم یدخل، كبیرةً کانت المرأة أو صغیرةً، یجامع مثلها، کذا في فتاویٰ قاضي خان. سواء کانت حرةً أو مکاتبةً، كذا في الجوهرة النیرة."

(  كتاب الطلاق ، الباب التاسع عشر فی النفقات ، 544/1،ط:رشیدیہ)

وفیہ ایضاً:

"وإن كفل للمرأة رجل بنفقة كل شهر لم يكن كفيلا إلا بنفقة شهر واحد، ولو قال الكفيل: كفلت لك عن زوجك بنفقة سنة كان كفيلا بنفقة السنة، وكذا لو قال: كفلت لك بالنفقة أبدا أو ما عشت كان كفيلا بالنفقة ما دامت في نكاحه، وإذا كفل إنسان بنفقة شهر، أو سنة فطلقها زوجها بائنا، أو رجعيا يؤخذ الكفيل بنفقة العدة."

(کتاب الطلاق،الباب السابع عشرفی النفقات الخ،553/1،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407102029

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں