بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے انتقال کی صورت میں شوہر محرم ہو گا یا نا محرم؟


سوال

 سوال یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کے لیے اس کے مرنے بعد نا محرم شمار ہوتا ہے یا نہیں؟اور اگر نا محرم شمار ہوتا ہے تو اس کے لیے  اس کو قبر میں اتارنا اور اس کے لیے دعائیں کرنا جائز نہیں ہونا چاہیے تھا ؟براہ کرم تفصیل سے جواب ارسال فرمادیں ۔

جواب

واضح رہے کہ بیوی شوہر  کے لیے غیر محرم ہوتی ہے، اسی وجہ سے دونوں کا آپس میں نکاح کرنا حلال ہوتا ہے؛ کیوں کہ محرم    اُسی شخص کو کہتے ہیں جس سے عورت کا نکاح حرام ہو۔ پھر میاں بیوی  کا ساتھ  رہنا  عقدِ  نکاح کی وجہ  سے  جائز ہوتا ہے، اور عقدِ نکاح ہے ہی اسی لیے کہ جو مرد و عورت اس عقد سے پہلے ایک دوسرے کے لیے حرام ہوتے ہیں عقدِ نکاح کی وجہ سے ایک دوسرے کے لیے حلال ہوجاتے ہیں۔

تاہم بیوی کے انتقال کی صورت میں نکاح کا رشتہ اس طور پر ختم ہوجاتا ہے کہ شوہر  مرحومہ بیوی کے جسم کو نہ بلا حائل چھو سکتا ہے، نہ غسل دے سکتا ہے اور نکاح کی وجہ سے بیوی کے وہ تمام رشتہ دار جن سے نکاح کی شرعاً اجازت نہیں تھی وہ سب کے سب حلال ہوجاتے ہیں،لہذا اس معنی میں صورتِ مسئولہ میں  شوہر بیوی کے لیے غیر محارم  میں شمار ہو گا۔

لہذ اصورتِ مسئولہ میں بیوی کے انتقال کی صورت میں شوہر اس کے لیے اجنبی ہو جاتا ہے ،اس لیے بیوی بھی چوں کہ شوہر کے لیے اجنبی ہو جاتی ہے ،اس لیے بہتر یہ ہے کہ اگر اس کے محرم رشتہ دار موجود ہوں تو وہی عورت کو قبر میں اتاریں ،(گو ان کی موجودگی میں بھی شوہر ان کے ساتھ مل کر  بیوی کو قبر میں اتار سکتا ہے ،کیوں کہ یہ بلا حائل نہیں ہے جو کہ منع ہے ،بلکہ یہاں پر چادر اور کفن موجود ہے )اور اگر وہ نہیں ہیں،تو باقی اجانب کی طرح  مرد بھی اپنی بیوی کو قبر میں اتار سکتا ہے ،نیز دعائے مغفرت  کرنے میں محرم یا غیر محرم  کی کوئی تخصیص نہیں ،ہر ایک دوسرے مسلمان مردوں اور عورتوں کے لیے دعائے مغفرت  کر سکتاہے ۔

فتاوی محمودیہ میں ہے:

عورت کو اس کا شوہر قبر میں اتار سکتا ہے یا نہیں؟

سوال[4192] : شوہر کی حیات میں اگر عورت کا انتقال ہوجائے تو مرحومہ حلقہ شوہریت سے نکل جاتی ہے یا نہیں اور مرد کا بحیثیتِ نا محرم ہونا درست ہے یا نہیں؟ نیز حقیقی محرم جیسے باپ، بھائی، بیٹا وغیرہ کی موجودگی میں شوہر مذکور مرحومہ کو قبر میں اتار سکتا ہے یا نہیں؟

الجواب حامداً و مصلیاً:

انتقال سے نکاح ختم ہوجاتا ہے، ہاتھ نہیں لگا سکتا، البتہ دیکھنا درست ہے۔ جب محرم باپ، بھائی وغیرہ موجود ہوں تو تو وہ مقدم ہیں، وہی قبر میں اتاریں، شوہر کو بھی اتارنا اور جنازہ کو ہاتھ لگانا درست ہے۔

(باب الجنائز، ج:9، ص:63، ط:ادارۃ الفاروق) 

وفيه أيضاً:

"إذا ماتت فلا يغسلها لانتهاء ملك النكاح لعدم المحل ‌فصار أجنبيا".

(کتاب الصلاۃ، باب صلاة الجنازة، ج:2، ص:199، ط:سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"‌إذا ‌ماتت ‌المرأة حيث لا يغسلها الزوج؛ لأن هناك انتهى ملك النكاح لانعدام المحل، فصار الزوج أجنبيا".

(كتاب الصلاة، فصل بيان الكلام فيمن يغسل، ج:1، ص:304، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وذو الرحم المحرم أولی بادخال المرأة من غیرهم، وکذا ذو الرحم غیر المحرم أولی من الأجنبي".

( کتاب الصلاة، باب الجنائز، الفصل السادس في القبر والدفن والنقل من مکان الی مکان، ج:1، ص:166، ط:رشيدية)

فتاویٰ شامی میں ہے :

"(و يمنع زوجها من غسلها و مسها لا من النظر إليها علي الأصح) منية".

وفی الرد:أشار إلى ما في البحر من أن من شرط الغاسل أن يحل له النظر إلى المغسول فلا يغسل الرجل المرأة وبالعكس".

(کتاب الصلاۃ، باب صلاة الجنازة، ج:2، ص:198، ط:سعيد)

خلاصة الفتاوی میں ہے: 

"وقال الإمام الأجل فخر الدين خان: يكره للناس أن يمنعوا حمل جنازة المرأة لزوجها مع أبيها و أخيها، و يدخل الزوج في القبر مع محرمها استحساناً، و هو الصحيح و عليه الفتوي."

(کتاب الصلوۃ،باب الجنائز،1 /225)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507102130

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں