بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر فلاں سے بات کی تو تو میری بیوی نہیں کہنے کا حکم


سوال

میرے شوہر نے کچھ ماہ پہلے مجھ سے کہا تھا کہ اگر بھائی سے بات کی تو تم میری بیوی نہیں ،میں نے اب تک بات نہیں کی ہے ،اب میں حمل سے ہوں،اب میرا شوہر کہتا ہے کہ کرلو بات ..اب میں کیا کروں ؟واضح رہے اس نے طلاق یا آزادی کا لفظ استعمال نہیں کیا ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں  شوہر نے مذکورہ الفاظ (بھائی سے بات کی تو تو میری بیوی نہیں ) کہتے وقت  اگر طلاق کی  نیت کی تھی تو مذکورہ  الفاظ سے  سائلہ  کی اپنے  بھائی سے بات کرنے  کی شرط کے ساتھ معلق طلاق واقع ہوجائے گی لہذاجیسےہی   سائلہ اپنے  بھائی سے بات کرے گی ایک  طلاق بائن  واقع ہو جائے گی ،دونوں  کا نکاح ٹوٹ جائے گا اور رجوع جائزنہیں ہو گا ، البتہ   باہمی رضامندی سے  اگردوبارہ گھر بساناچاہیں گےتوشرعی گواہوں کی موجودگی میں  نئے ایجاب و قبول اور نئے  مہر کے ساتھ تجدید ِنکا ح کر  کے باہم رہ سکیں گے چاہے یہ نکاح عدت کے اندر کریں یا عدت کے بعد ،اور اگر مذکورہ لفظ بولتے وقت طلاق کی نیت نہ کی ہو تو  بیوی (سائلہ)کے بھائی سے بات کرنے کی وجہ سے  اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہو گی چاہے ابھی بات کرے یا آئندہ بات کرے ۔

قرآن ِکریم میں ہے:

"وَ بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِیْ ذٰلِكَ اِنْ اَرَادُوْۤا اِصْلَاحًا."(سورة البقرة،22)

ترجمہ  :"اور ان عورتوں کے شوہر ا ن عورتوں  کے لوٹا لینے کا حق رکھتے ہیں ،اس مدت کے اندر بشرطیکہ  اصلاح کا قصد رکھتے ہوں "(بیا ن القرآن)

قرآنِ کریم میں ہے:

 "وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ ."(سورة البقرة،232)

ترجمہ:"اور اگر  تم میں ایسے لو گ پائے جاویں  کہ وہ اپنی  بیبیوں کو طلاق دے دیویں پھر وہ  عورتیں اپنی میعاد بھی پوری کر چکیں تو تم ان کو اس امر سے مت روکو کہ  وہ اپنے شوہروں سے نکاح کر لیں  جب کہ باہم سب قاعدہ کے موافق"(بیا ن القرآن )

مصنف   عبد الرزاق میں ہیں :

"عن شعبة قال: سألت الحکم وحمادًا عن الرجل یقول: لست لي بامرأة، فقال الحکم: إن نوی طلاقاً فهي واحدة بائنة. وقال حماد: إن نویٰ طلاقًا فهي واحدۃ، وهو أحق بها". 

((المصنف لعبد الرزاق،کتاب الطلاق / باب لیست لي بامرأۃ،ج،6،ص398،ط،دارالتاصیل)

البحرالرائق میں ہے :

"(قوله: وتطلق بلست لي بامرأة أو لست لك بزوج إن نوي طلاقا) ... ودخل في كلامه ما أنت لي بامرأة وما أنا لك بزوج ولا نكاح بيني وبينك... قيد بالنية لأنه لا يقع بدون النية اتفاقا لكونه من الكنايات ولا يخفى أن دلالة الحال تقوم مقامها حيث لم يصلح للرد والشتم ويصلح للجواب فقط وقدمنا أن الصالح للجواب فقط ثلاثة الفاظ ليس هذا منها فلذا شرط النية للإشارة الى أن دلالة الحال هنا لا تكفي."

 (باب الكنايات في الطلاق، 330/3، ط:دار الكتاب الاسلامي)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولو قال لامرأته ‌لست ‌لي ‌بامرأة أو قال لها ما أنا بزوجك أو سئل فقيل له هل لك امرأة فقال لا فإن قال أردت به الكذب يصدق في الرضا والغضب جميعا ولا يقع الطلاق وإن قال نويت الطلاق يقع في قول أبي حنيفة - رحمه اللہ."

(الفصل الاول في الطلاق الصريح ،ج،1،ص،376،ط،دارالفکر)

فتاوی عالمگیری میں ہے  :

"إذا كان الطلاق بائنا ‌دون ‌الثلاث فله أن يتزوجها في العدةوبعد انقضائها."

(باب ما تحل به المطلقة وما يتصل به،ج،1،ص،472،ط،دارالفکربیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100532

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں