ایک شخص نے اپنی حاملہ بیوی سے ایک مرتبہ کہا تو مجھ پر ماں بہن مطلقہ ہو، پھر دوران عدت رجوع کرکے کچھ عرصہ بعد پھر دو مرتبہ یہی الفاظ کہے تو مجھ پر ماں بہن مطلقہ ہو(تا پہ ما مور خور طلا قہ یی) تو اس مسئلہ کا شرعی حکم کیا ہے؟
صورت مسئولہ میں جب شوہر نے اپنی بیوی کو حالت حمل میں ان الفاظ سے طلاق دی "تو مجھ پر ماں بہن مطلقہ ہو " اس سے اس کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی تھی ،دوران عدت رجوع کرنے سے نکاح برقرار رہا ،پھر کچھ عرصہ بعد مذکورہ الفاظ دو مرتبہ دوبارہ استعمال کیے ،جس سے مجموعی طور پر بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں ،بیوی اپنے شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے ،اس کے بعد دونوں کا ساتھ رہنا جائز نہیں ،بیوی عدت ( بچے کی پیدائش ) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے ۔
فتاوی شامی میں ہے :
"(وإن نوى بأنت علي مثل أمي) ، أو كأمي، وكذا لو حذف علي خانية (برا، أو ظهارا، أو طلاقا صحت نيته) ووقع ما نواه لأنه كناية (وإلا) ينو شيئا، أو حذف الكاف (لغا) وتعين الأدنى أي البر، يعني الكرامة. ويكره قوله أنت أمي ويا ابنتي ويا أختي ونحوه.
(قوله: ويكره إلخ) جزم بالكراهة تبعا للبحر والنهر والذي في الفتح: وفي أنت أمي لا يكون مظاهرا، وينبغي أن يكون مكروها، فقد صرحوا بأن قوله لزوجته يا أخية مكروه. وفيه حديث رواه أبو داود «أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - سمع رجلا يقول لامرأته يا أخية فكره ذلك ونهى عنه» ومعنى النهي قربه من لفظ التشبيه، ولولا هذا الحديث لأمكن أن يقال هو ظهار لأن التشبيه في أنت أمي أقوى منه مع ذكر الأداة، ولفظ " يا أخية " استعارة بلا شك، وهي مبنية على التشبيه، لكن الحديث أفاد كونه ليس ظهارا حيث لم يبين فيه حكما سوى الكراهة والنهي، فعلم أنه لا بد في كونه ظهارا من التصريح بأداة التشبيه شرعا، ومثله أن يقول لها يا بنتي، أو يا أختي ونحوه. اهـ"
(کتاب الطلاق،باب الظہار،ج:3،ص:470،سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"وإن کان الطلاق ثلاثاً في الحرة وثنتین في الأمة لم تحل له حتی تنکح زوجًا غیره نکاحًا صحیحًا ویدخل بها، ثم یطلقها أو یموت عنها".
( کتاب الطلاق،الباب السادس في الرجعة،ج:1،ص:473،دارالفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511100398
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن