بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو تین طلاقیں ایک ساتھ دینے کا حکم


سوال

زید کی پہلی شادی ہوچکی ہے، مگر کچھ وجوہات، گھر کی ناچاقیوں اور جھگڑوں کے باعث اور کچھ بیوی کی غلط رویوں کے بِنا پر یہ رشتہ تا سر دمِ آخر انجام کو پہنچ نہیں سکا، زید اس دوران بارہا بیوی کو کہہ چکا ہے، کہ میں تمہیں تمہارے میکے چھوڑ جاؤں گا مگر واپس نہیں لاؤں گا، پھر بیوی کو میکے چھوڑ جاتا ہے، اب اس دوران طلاق سے پہلے زید دوسری جگہ رشتے کے لئے اپنے گھر والوں کو بھیجتا ہے، مگر وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی لڑکی ایسے سوتن میں نہیں دیتے، پہلے وہ معاملہ حل کرو، اب زید اسے طلاق دینا چاہتا ہے، مگر دوسری شادی اسی جگہ کرنا چاہتا ہے، پھر زید کے ابو زید سے کہتے ہیں، جا کر لڑکی( پہلی بیوی) میکے والوں سے مل لو، ان سے بات کر لوں معاملات کو اچھے سے حل کرنے کی کوشش کرو، مگر جب زید وہاں جاتا ہے بات کرنے کے لئے تو بات بات پہ تو تو میں میں شروع ہو جاتی ہے، اور پھر جھگڑا شروع ہو جاتا ہے، تو زید بس طلاق کے الفاظ بولتا ہے، یوں کہتا ہے ’’میں نے تجھے طلاق دے دی ہے، دے دی ہے، دے دی ہے‘‘ لفظِ طلاق یک بار بولتا ہے، اور الفاظ ’’دے دی ہے‘‘تین(3) بار کہتا ہے، زید کو طلاق رجعی، بائن اور مغلظہ کے بارے میں علم نہیں، اب کون سی طلاق واقع ہوئی ہے؟ کیوں کہ زید اپنے گمان میں سوچتا ہے کہ اب میں نے اپنی طرف سےبالکل فارغ کردی ہے، مگر لڑکی کے گھر والے کہتے ہیں کہ ایسے نہیں ہوتا ہے، پھر لڑکی والوں نے حق مہر ادا کرنے کی بات کی تو حق مہر زید لوگوں نے کچھ زیادہ رکھا تھا، زید والوں نے کہا کہ معاملہ عدالت میں لے کر جائیں گے اتنے پیسے وغیرہ کیش میں دینا مشکل ہے، قسط وار ادا کرتے ہیں، لڑکی والے نہیں مانے، پتہ نہیں پھر زید کے ابو کہاں سے کسی دو علماء سے پوچھتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ طلاق نہیں ہوئی ہے، اب زید بہت پریشان ہے، جس دوران طلاق دی گئی ہے، اس دوران لڑکی ایک بچے کو بھی جنم دے چکی ہے، مگر نفاس کے 40 دن مکمل نہیں ہوئے، اور کہتے ہیں 3 طلاقیں ایک ہی موقع پر واقع نہیں ہوتی؟ کیا یہ بات درست ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ ایک ساتھ یا ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دینا خلافِ سنت ہے، ایسا کرنے والا سخت گناہ  گارہے، جس کی وجہ سے صدقِ دل سے توبہ واستغفار کرنا لازم ہے، تاہم اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دے تو قرآن و حدیث، جمہور صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین بشمولِ ائمہ اربعہ ( یعنی حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک ،  حضرت امام شافعی، اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ) کے نزدیک ایک مجلس میں دی جانے والی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں، جو لوگ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک شمار کرتے ہیں ان کا قول  قرآن و حدیث، جمہور صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین بشمول ائمہ اربعہ  کے مسلک کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابلِ اعتبار ہے، اوراکھٹی دی گئی تین طلاقوں کو ایک طلاق قرار دینا یا سمجھنا صریح گمراہی ہے، قرآنی نصوص اور احادیث مبارکہ کے خلاف ہے۔

مذکورہ تفصیل کے پیش نظر صورتِ مسئولہ میں زید نے جب اپنی بیوی کو  یہ کہا کہ ’’میں نے تجھے طلاق دے دی ہے، دے دی ہے، دے دی ہے‘‘تو اس سے زید کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، زید کی بیوی زید پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، نکاح ختم ہوچکا ہے، اب رجوع جائز نہیں ہے، اور دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا، سائل کی بیوی اپنی عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، اور اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے، ہاں اگر مطلقہ اپنی عدت گزار نے کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے، اور اس دوسرے شوہر سےصحبت(جسمانی تعلق) قائم ہوجائے، اس کے بعد وہ دوسرا شوہر اسے طلاق دےدے، یا بیوی طلاق لےلے، یا شوہر کا انتقال ہوجائے، تو اس کی عدت گزار کرپہلے شوہر کے ساتھ دوبارہ نکا ح ہوسکتا ہے۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"‌وإن ‌كان ‌الطلاق ‌ثلاثا ‌في ‌الحرة ‌وثنتين ‌في ‌الأمة ‌لم ‌تحل ‌له ‌حتى ‌تنكح ‌زوجا ‌غيره ‌نكاحا ‌صحيحا."

(کتاب الطلاق،فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج:1، ص:473، ط:دار الفكر بيروت) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100482

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں