زید نے ایک عورت کے ساتھ نکاح کیا، ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی اور خلوت صحیحہ بھی نہیں پائی گئی، زید نے اپنی بیوی کو طلاق کا اختیار دے دیا اور اسے یہ کہا کہ تمہیں ایک طلاق کا اختیار دیتا ہوں اور زید کی بیوی نے اس اختیار کو اپنا لیا اور اپنے آپ کو طلاق دے دی، سوال یہ ہے کہ ایک طلاق دینے کی وجہ سے وہ بائن ہو گی یا نہیں؟۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ اب زید دوبارہ اس کے ساتھ نکاح کرنا چاہے تو کیسے کر سکتا ہے؟ حلالہ کرنا ضروری ہوگا یا نہیں؟۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر نکاح کرنا درست ہے تو زید کو نکاح کے بعد کتنی طلاقوں کا اختیار ہوگا دو طلاقوں کا یا تین طلاقوں کا ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"وفي المحيط لا بد من ذكر النفس أو التطليقة أو الاختيار في أحد الكلامين لوقوع الطلاق بأن قال الزوج اختاري نفسك أو اختاري تطليقة أو اختاري اختيارة أو قالت المرأة: اخترت نفسي أو اخترت تطليقة أو اختيارة وقع الطلاق بذلك".
(کتاب الطلاق،الباب الثالث فی تفویض الطلاق،ج:1،ص:388،دارالفکر)
در مختار میں ہے :
"(وإن فرق) بوصف أو خبر أو جمل بعطف أو غيره (بانت بالأولى) لا إلى عدة (و) لذا (لم تقع الثانية) بخلاف الموطوءة حيث يقع الكل".
( فتاوی شامی ،کتاب الطلاق،باب طلاق غیر المدخول بہا،ج:3،ص:286،سعید)
مجمع الانہر میں ہے :
"(و) لزم (نصفه) أي المسمى (بالطلاق قبل الدخول و) قبل (الخلوة الصحيحة) لقوله تعالى : {وإن طلقتموهن من قبل أن تمسوهن} [البقرة: 237] الآية".
(کتاب النکاح،باب المہر،ج؛1،ص:346،داراحیاءالتراث العربی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144407101664
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن