بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو رہائش کی فراہمی کا کیا مطلب ہے؟


سوال

کیا میں اپنے شوہر سے یہ مطالبہ کرسکتی ہوں کہ ایک گھر کے  دو پورشن بناکر مجھے بالکل الگ پورشن میں رکھے، اور دوسرے پورشن میں  اپنے گھر والوں کو رکھے؟ مگر میرے شوہر کہتے ہیں کہ صرف کھانا  پکانا الگ کرنا شریعت میں ہے، رہنا سب کے ساتھ ہوگا، رہنمائی فرمائیں شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

شریعتِ مطہرہ نے شوہر کو  اپنی  بیوی کے نان و نفقہ  کی ادائیگی اور  اسے علیحدہ  رہائش فراہم کرنے کا پابند کیا ہے، تاہم  رہائش سے مراد ایسا کمرہ  فراہم کرنا ہے، جس میں شوہر کے گھر والوں کی مداخلت نہ ہو،  نیز  اگر بیوی شوہر کے گھر والوں کے ساتھ  مشترکہ طور پر کھانا پکانا اور کھانا نہیں چاہتی تو  الگ پکانے کی سہولت فراہم کرنا بھی ضروری ہے، یہ سہولت والدین کے ساتھ  ایک ہی گھر میں فراہم کردے تب بھی ذمہ داری پوری ہوجاتی ہے، الگ جگہ پر گھر لے کر دینا ضروری نہیں، باقی اگر شوہر الگ گھر میں ٹھہرانے کی استطاعت رکھتا ہے اور اس میں مصلحت سمجھتا ہے تو اس کی بھی گنجائش ہے، تاہم اس قسم کے مطالبہ کا حق بیوی کو نہیں۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کے شوہر کی استطاعت اتنی نہیں ہے کہ وہ گھر میں دو مستقل پورشن بناسکیں تو آپ شوہر سے مستقل پورشن کا مطالبہ نہ کیجیے، اسی گھر میں علیحدہ کمرہ، واش روم اور کچن کی سہولت دے دیں تو ان کی ذمہ داری پوری ہوجائے گی۔

بہشتی زیور میں ہے:

” گھر میں سے ایک جگہ عورت کو الگ کردے کہ وہ اپنا مال اسباب حفاظت سے رکھے اور خود اس میں رہے سہے اور اس کی قفل کنجی اپنے پاس رکھے، کسی اور کو  اس میں دخل نہ ہو، فقط عورت ہی کے قبضے میں رہے تو بس حق ادا ہوگیا، عورت کو اس سے زیادہ کا دعوی نہیں ہوسکتا، اور یہ نہیں کہہ سکتی کہ پورا گھر میرے لیے الگ کردو‘‘۔ (بہشتی زیور، بعنوان: رہنے کے لیے گھرملنے کا بیان، ص:333)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك". (الباب السابع عشر في النفقات 1/556، ط: ماجدية)

 فتاوی  شامی میں ہے:

"إن أمكنه أن يجعل لها بيتا على حدة في داره ليس لها غير ذلك". (مطلب في مسكن الزوجة 3/601، ط: سعيد) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108201656

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں