بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو دس مرتبہ تو مجھ پر حرام ہے کہنا


سوال

میرے  والد صاحب نے اپنی دوسری بیوی کو 2018 میں  گواہوں کی موجودگی میں 10 مرتبہ تقریباً طلاق دی ،یعنی یہ کہا کہ تو مجھ پر حرام ہے ، اس کے باوجود 6 سال سے بغیر نکاح کے  ایک ساتھ رہ رہے ہیں ،اور پوچھنے پر کہتے ہیں کہ ہم نے حلالہ کر لیا ہے ،جب کہ طلاق دینے کے سات (7)ماہ بعد دوبارہ ساتھ رہنے لگے ؟

2۔اور اسی دوران والدین میں جھگڑا ہو رہا تھا تو   اسی جھگڑے کے دوران کہا کہ کہ "اگر تم نے قدم گھر سے باہر نکالا تو  تو مجھ پر حرام "، اور  والدہ اسی وقت گھر سے نکل گئی تھیں ،اگر ایسی  شرط لگا کر طلاق دی جائے تو کیا وہ اس کے بعد گھر سے نکل جائے تو طلاق ہو گی یا نہیں ؟

کیا سات ماہ میں دو عدتیں ہو سکتی ہیں ؟

وضاحت : سائل سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ نکاح دونوں کے درمیان ہوا ہی نہیں ،ویسے صرف دھوکہ دینے کے لیے ایسا بول رہے ہیں ،کہ حلالہ کروا لیا۔

جواب

1۔لفظ ’’حرام‘‘ طلاق کے بارے میں عرف کے اعتبار سےصریح بائن بن چکا ہے،یعنی اس لفظ کے استعمال سے بغیر نیت کے بھی طلاقِ بائن واقع ہوجائے گی، چوں کہ لفظِ حرام سے طلاقِ بائن واقع ہوتی ہے اور ایک بائن طلاق کے بعد دوسری بائن طلاق واقع نہیں ہوتی،اس لیے صورتِ مسئولہ میں سائل کے والد صاحب نے جب اپنی بیوی کو 10 بار یہ الفاظ کہے کہ "تو مجھ پر حرام ہے "تو اس سے ایک ہی طلاقِ بائن واقع ہوئی تھی ،دونوں کا نکاح ٹوٹ گیا تھا ،اس کے بعد ان کا ایک ساتھ رہنا  تجدیدِ نکاح  کے بغیر ،حرام اور ناجائز  تھا،لہذا دونوں پر لازم ہے کہ فی الفور تجدیدِ نکاح کر لیں اور اگر تجدیدِ نکاح نہیں کرنا تو فوراًعلیحدہ ہو جائیں ،ااور تجدیدِ نکاح کے بغیر جتنا عرصہ ساتھ رہیں اس پر اللہ تعالی سے سچے دل سے توبہ استغفار کریں ۔

2۔چوں کہ طلاقِ بائن کے بعد طلاقِ بائن واقع نہیں ہوتی ،اس کے بعد مذکورہ  الفاظ کو ادا کرنے سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ۔

3۔اگر عورت حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے ،اور جن عورتوں کی عدت تین حیض یاتین ماہ ہو،سات ماہ میں ان کی دو عدتیں گزر سکتی ہیں ۔

فتاوی شامی  ميں ہے :

"ومن الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام فيقع بلا نية للعرف.

 (قوله: فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحاً لا كنايةً، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن؛ لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحاً؛ لأنه صار فاشياً في العرف في استعماله في الطلاق لايعرفون من صيغ الطلاق غيره ولايحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لايستعمل عرفاً إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحاً كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية".

(كتاب الطلاق،ج:3،ص:252،ط:سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد ولا يصح ظهاره، وإيلاؤه ولا يجري اللعان بينهما ولا يجري التوارث ولا يحرم حرمة غليظة حتى يجوز له نكاحها من غير أن تتزوج بزوج آخر؛ لأن ما دون الثلاثة - وإن كان بائنا - فإنه يوجب زوال الملك لا زوال حل المحلية."

(کتاب الطلاق، فصل فی حکم الطلاق البائن، 187/3، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها، وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية."

( کتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة ، ج1،ص472، ط: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(لا) يلحق البائن (البائن)

(قوله: لايلحق البائن البائن) المراد بالبائن الذي لايلحق هو ما كان بلفظ الكناية؛ لأنه هو الذي ليس ظاهرًا في إنشاء الطلاق كذا في الفتح، وقيد بقوله الذي لايلحق إشارة إلى أن البائن الموقع أولا أعم من كونه بلفظ الكناية أو بلفظ الصريح المفيد للبينونة كالطلاق على مال، وحينئذ فيكون المراد بالصريح في الجملة الثانية أعني قولهم فالبائن يلحق الصريح لا البائن هو الصريح الرجعي فقط دون الصريح البائن، وبه ظهر أن ما نقله الشارح أولا عن الفتح من أن الصريح ما لايحتاج إلى نية بائنّا كان الواقع به أو رجعيًّا خاص بالصريح في الجملة الأولى: أعني قولهم الصريح يلحق الصريح والبائن كما دل عليه كلام الفتح الذي ذكرناه هنا."

(کتاب الطلاق، باب الکنایات، ج:3، ص:308، ط:ایج ایم سعید)

فتاوی شامی  میں ہے   :

"وأما عدة الطلاق فثلاثة قروء في حق ذوات الأقراء إذا كانت حرة .....وأما في حق الحامل فعدتها وضع الحمل لا خلاف في المطلقة لظاهر قوله: {وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن}."

(كتاب الطلاق، باب العدة (2/ 244، 245)،ط. دار الكتب العلمية)

فقط واللہ أعلم 


فتوی نمبر : 144410100901

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں