بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو دین دار کیسے بنائیں؟


سوال

 میری اہلیہ ماشاءاللہ بہت ہی اچھی ہیں اور بہت میرا کہنا مانتی ہیں،مگر دین کے معاملے میں بہت پیچھے ہیں، نماز اور روزے کی فکر نہیں ہے اتنی، جب دل میں آتا ہے نماز پڑھ لیتی ہیں، جب دل میں آتا  ہے نہیں پڑھتی ،میں اپنی بیگم کو کس طرح سے دین پر لاؤں؟

اور کس طرح سے وہ نیک بنے، مجھے اس کی بہت فکر رہتی ہے ،آ پ اس بارے میں مشورہ عنایت فرمائیں کس طرح وہ پوری کی پوری دین  پر آجائیں،میری اولاد بھی اللہ والی نیک بن جائے اور بیگم بھی شرعی پردہ شروع کر دیں، اللہ والی نیک بن جائیں، یہ سب کیسے ہو ؟

جواب

واضح رہے کہ  ہر شخص پر اس کے اہل وعیال   کو دین کی بنیادی تعلم دینا اور انہیں حلال وحرام کی تمیز سکھانا لازم وضروری ہے ،اس میں کمی کوتاہی کرنا جائز نہیں ہے ،اللہ تعالیٰ قرآن ِ کریم میں ارشاد  فرماتے ہیں  کہ :

"یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ ."(سورة التحريم :6)

ترجمہ:اے ایمان والو تم اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو (دوزخ کی ) اس آگ سے بچاؤ ۔"

وفی تفسیرہ :

" اپنے کو بچانا خود اطاعت کرنا اور گھر والوں کو بچانا ان کو احکام الہیہ سکھلانا اور ان پر عمل کرانے کے لئے زبان سے ، ہاتھ سے بقدر امکان کوشش کرنا۔"

(بیان القرآن ،تفسیر سورۃ التحریم:6،حصہ دوم ص:1155 ،ط:ادارۃ تالیفات ِ اشرفیہ)

معارف  القرآن میں ہے :

         "حضرات فقہا نے فرمایا کہ اس آیت سے ثابت ہوا کہ ہر شخص پر فرض ہے کہ اپنی بیوی اور اولاد کو فرائض شرعیہ اور حلال و حرام کے احکام کی تعلیم دے اور اس پر عمل کرانے کے لئے کوشش کرے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص پر اپنی رحمت نازل کرے جو کہتا ہے اے میرے بیوی بچو، تمہاری نماز، تمہارا روزہ ، تمہاری زکوٰة، تمہارا مسکین، تمہارا یتیم، تمہارے پڑوسی، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو اسکے ساتھ جنت میں جمع فرمائیں گے۔ تمہاری نماز، تمہارا روزہ وغیرہ فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں کا خیال رکھو اس میں غفلت نہ ہونے پائے اور مسکینکم یتیمکم وغیرہ فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے جو حقوق تمہارے ذمہ ہیں ان کی خوشی اور پابندی سے ادا کرو اور بعض بزرگوں نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب میں وہ شخص ہوگا جس کے اہل وعیال دین سے جاہل وغافل ہوں۔"

(تفسیر سورۃ التحریم :6 ،ج:8،ص:503،ط:مکتبۃ المعارف)

 

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل پر اپنی بیوی بچوں کی  دینی تربیت کرنا واجب وضروری ہے ،اس کی فکر کرنا ضروری ہے ،اور انہیں راہِ راست پر لانے کے لیے سائل کو چاہیے کہ خود بھی دینی احکامات پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ مصلحت اور   پیار ومحبت کے ساتھ  اپنی بیوی کو بھی دینی احکامات سکھلائے اور ان پر عمل  کرنے کی تاکید کرے ،اور اپنے خاندان کی نیک اور نمازی صوم وصلاۃ کی پابند خواتین کے ذریعے بھی دین پر لانے کی کوشش کرے ،نیز محبت اور نرمی سے تنہائی میں نماز  اور دین کے باقی احکام کی اہمیت اور  فضائل سنائے، حکمِ الٰہی کی عظمت اس کے سامنے بیان کریں ،  تاکہ دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور حکمِ الٰہی کی عظمت پیدا ہونے کی وجہ سے نماز کا شوق پیدا ہوجائے ، سختی سے بات کرنے سے حتیٰ الامکان پرہیز کرے،اسی طرح عار دلانے، شرمندہ کرنے اور کسی دوسرے کے سامنے ذلیل کرنے سے بھی بچے، البتہ کبھی کبھی اگر کچھ سختی کرنا  یا خفگی کا اظہار کرنا مفید معلوم ہو تو اس پر بھی عمل کرنا چاہیے،اور اگر ہو سکے تو کسی اللہ والے (یعنی  وہ  ایسا شخص  جو خود کسی صاحب نسبت بزرگ کی تربیت میں رہ کراصلاح نفس کے مراحل سے گزرا ہو ، اور کسی شیخِ کامل سے مجاز بھی ہو) سے بیعت کروا دیں ،اور وقتاً فوقتاً اپنی اصلاح کی فکر کروائیں ۔

نیز دینی کتب کا مطالعہ بھی مفید رہے گا ،حکیم الامت حضرت مولانا شاۃ اشرف علی تھانوی ؒ کی کتاب "بہشتی زیور " بھی خرید کر اہلیہ کو دیں ،اور اس کا مطالعہ کروائیں ،اور ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے صراطِ مستقیم پر چلنے کی دعا بھی کریں ۔

روح المعانی میں ہے :

"يا أيها الذين آمنوا قوا أنفسكم وأهليكم نارا أي نوعا من النار وقودها الناس والحجارة تتقد بهما اتقاد غيرها بالحطب، ووقاية النفس عن النار بترك المعاصي وفعل الطاعات، ووقاية الأهل بحملهم على ذلك بالنصح والتأديب،

وروي أن عمر قال حين نزلت: يا رسول الله نقي أنفسنا فكيف لنا بأهلينا؟

فقال عليه الصلاة والسلام: تنهوهن عما نهاكم الله عنه وتأمروهن بما أمركم الله به فيكون ذلك وقاية بينهن وبين النار» .

وأخرج ابن المنذر والحاكم وصححه وجماعة عن علي كرم الله تعالى وجهه أنه قال في الآية: علموا أنفسكم وأهليكم الخير وأدبوهم، والمراد بالأهل على ما قيل: ما يشمل الزوجة والولد والعبد والأمة.

واستدل بها على أنه يجب على الرجل تعلم ما يجب من الفرائض وتعليمه لهؤلاء، وأدخل بعضهم الأولاد في الأنفس لأن الولد بعض من أبيه،

وفي الحديث «رحم الله رجلا قال: يا أهلاه صلاتكم صيامكم زكاتكم مسكنكم ‌يتيمكم جيرانكم لعل الله يجمعكم معه في الجنة»

وقيل: إن أشد الناس عذابا يوم القيامة من جهل أهله."

(تفسير سورة التحريم ،ج:14 ،ص:351 ،ط:دار الكتب العلمية)

مشکاۃ مع مرقاۃ میں ہے :

"وعن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ألا) للتنبيه ( «‌كلكم ‌راع وكلكم مسئول عن رعيته» ) .

ترجمہ:خبردار تم میں سے ہر ایک (اپنے ماتحتوں )کا نگہبان ہے ،اور تم میں سے ہر ایک سے اا کے ماتحتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔"

في النهاية الرعية كل من شمله حفظ الراعي ونظره."

(كتاب الإمارة والقضاء، ج:6، ص:2402، ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507102002

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں