بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو دھمکی آمیز الفاظ کہنے سے طلاق حکم


سوال

میں نے کچھ عرصہ پہلے اپنی بیوی کو اس طرح کے الفاظ کہے تھے کہ ”اگر آپ نے میرے بیگ کو اور ان کاغذات کو میری اجازت کے بغیر ہاتھ لگایا تو مجھے مجبور مت کرنا کہ میں تمہیں وہ الفاظ دے دوں جو میں دینا نہیں چاہتا۔“

وہ بیگ اور کاغذات دونوں میں نے اسی وقت جلا دیے تھے، اس واقعہ کے بعد بیوی ایک مہینہ تک میرے پاس رہی، اب جب وہ اپنے میکے گئی ہے تو وہیں بیٹھی ہے اور کہہ رہی ہے کہ آپ نے مجھے یہ الفاظ کہے ہیں، اس سے طلاق واقع ہوچکی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا میرے ان الفاظ سے طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟ اگر نہیں ہوئی تو میرے بلانے پر اسے میرے گھر آنا شرعًا لازم ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل نے اپنی بیوی کو واقعی یہی الفاظ کہے تھے کہ ”اگر آپ نے میرے بیگ کو اور ان کاغذات کو میری اجازت کے بغیر ہاتھ لگایا تو مجھے مجبور مت کرنا کہ میں تمہیں وہ الفاظ دے دوں جو میں دینا نہیں چاہتا۔“ تو ان الفاظ سے کوئی طلاق نہیں ہوئی، بلکہ دونوں کا نکاح بدستور بر قرار ہے، لہٰذا سائل کی بیوی کا بغیر کسی شرعی عذر کے میکے میں بیٹھی رہنا اور شوہر کے بلانے کے باوجود اس کے گھر نہ آنا شرعًا جائز نہیں ہے، اس پر لازم ہے کہ شوہر کی اطاعت کرے اور اس کے بلانے پر واپس سسرال آجائے، ورنہ گناہ گار ہوگی۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"(وأما ركنه) فقوله: أنت طالق. ونحوه كذا في الكافي."

(كتاب الطلاق، الباب الأول، ج:1، ص:348، ط:المكتبة الرشيدية كوئته)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي. وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا لا صريحا ولا كناية لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره."

(كتاب الطلاق، ركن الطلاق، ج:3، ص:230، ط:ايج ايم سعيد)

وفيه أيضاً:

"‌وحقه ‌عليها أن تطيعه في كل مباح يأمرها به.

وفي الرد: (قوله: في كل مباح) ظاهره أنه عند الأمر به منه يكون واجبا عليها كأمر السلطان الرعية به ط."

(كتاب النكاح، باب القسم بين الزوجات، ج:3، ص:208، ط:ايج ايم سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"‌وعليها أن تطيعه في نفسها، وتحفظ غيبته؛ ولأن الله عز وجل أمر بتأديبهن بالهجر والضرب عند عدم طاعتهن، ونهى عن طاعتهن بقوله عز وجل{فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلاً}[النساء:34]، فدل أن التأديب كان لترك الطاعة، فيدل على لزوم طاعتهن الأزواج."

(كتاب النكاح، فصل وجوب طاعة الزوج على الزوجة، ج:2، ص:334، ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144606102257

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں