بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو ’’آپ کی ٹانگ مجھ پر حرام ہے‘‘ کہنے سے طلاق کا حکم


سوال

میری بیوی کے پاؤں پرزخم تھا، میں زخم پر دوائی لگانے لگا، تو اس نے پاؤں دور ہٹا لیا، تو میرے منہ سے نکلا’’ آپ کی ٹانگ مجھ پر حرام ہے جو اگر میں  دوبارہ زخم دیکھوں‘‘، سر مجھے ڈر ہے کہ ان الفاظ سے طلاق تو نہیں ہو گی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کی بیوی جب سائل کو اپنے پاؤں پر دوائی لگانے نہیں دے رہی تھی، اور سائل نے اپنی بیوی سے اس وقت یہ کہہ دیا تھا کہ’’’’ آپ کی ٹانگ مجھ پر حرام ہے جو اگر میں  دوبارہ زخم دیکھوں‘‘، تو ان الفاظ کے کہنے سے سائل کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، سائل اور اس کی بیوی کا ازدواجی رشتہ بدستور قائم ہے۔

البتہ مذکورہ الفاظ کے کہنے سے قسم واقع ہوگئی ہے، اگر آئندہ سائل اپنی بیوی کے پاؤں کے زخم کو  دیکھے گا، تو ا س قسم کا کفارہ ادا کرنا پڑے گا، قسم کا کفارہ یہ ہے کہ یا تو دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلا دے یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقۃ الفطر کی مقدار کے بقدر گندم یا اس کی قیمت دے دے( یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی رقم )اور اگر جو دے تو اس کا دو گنا (تقریباً ساڑھے تین کلو) دے،  یا دس فقیروں کو  ایک ایک جوڑا کپڑا پہنا دے، اور اگر  سائل اتنا ایسا غریب ہے کہ نہ تو کھانا کھلا سکتا ہے، اور نہ کپڑا دے سکتا ہے، تو مسلسل تین روزے رکھے ،اگر تین دن مسلسل روزے نہ رکھے، تو از سرِ نو تین روزے مسلسل ایک ساتھ دوبارہ سے رکھنے پڑیں گے۔

قرآن مجید میں اللہ ر ب العزت کا ارشاد ہے:

"لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ وَلكِنْ يُؤاخِذُكُمْ بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمانَكُمْ كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آياتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ."

(سورۃ المائدۃ: 89)

ترجمہ:’’اللہ تعالیٰ تم سے مواخذہ نہیں فرماتے، تمہاری قسموں میں لغو قسم پر، لیکن مواخذہ اس پر فرماتے ہیں کہ تم قسموں کو مستحکم کرو، سو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا دینااوسط درجہ کا جو اپنے گھر والوں کو کھانے کو دیا کرتے ہو، یا ان کو کپڑا دینا یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا، اور جس کو مقدور نہ ہو، تو تین دن کے روزے ہیں، یہ کفارہ ہے تمہاری قسموں کا جب کہ تم قسم کھالو، اور اپنی قسموں کا خیال رکھا کرو، اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اپنے احکام بیان فرماتے ہیں، تاکہ تم شکر کرو۔‘‘

(از: بیان القرآن)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وتنحل) اليمين (بعد) وجود (الشرط مطلقا)."

(کتاب الطلاق، باب التعلیق، ج: 3، ص: 355، ط: سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"واختلف فيما إذا ‌أضاف ‌الطلاق إلى الجزء المعين الذي لا يعبر به عن جميع البدن كاليد والرجل والأصبع ونحوها؛ قال أصحابنا: لا يقع الطلاق."

(کتاب الطلاق، فصل في شرائط ركن الطلاق وبعضها يرجع إلى المرأة، ج: 3، ص: 143، ط: دار الكتب العلمية)

ہدایہ میں ہے:

" وإذا ‌أضاف ‌الطلاق إلى جملتها أو إلى ما يعبر به عن الجملة وقع الطلاق " لأنه أضيف إلى محله " وذلك مثل أن يقول أنت طالق "...... " رقبتك طالق أو عنقك " طالق أو رأسك طالق " أو روحك أو بدنك أو جسدك أو فرجك أو وجهك " لأنه يعبر بها عن جميع البدن ............ ولو قال يدك طالق أو رجلك طالق لم يقع الطلاق وقال زفر والشافعي رحمهما الله يقع وكذا الخلاف في كل ‌جزء معين لا يعبر به عن جميع البدن."

کتاب الطلاق، باب إیقاع الطلاق، مدخل، ج: 1، 226، ط: دار احياء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101237

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں