بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو آج سے تم میری ماں نہیں ہو؛ کہنے کا حکم


سوال

1۔ شوہر بیوی سے ہمبستری کا تقاضہ کرتا ہے، بیوی مسلسل حیلے اور بہانے کرتی ہے، تو شوہر نے غصہ میں آکر بیوی کو یہ  کہہ دیا کہ: "آج سے تم میری ماں،" یہاں پر یعنی لفظِ ماں پر اس کا غصہ ختم ہوگیا اور وہ چند لمحے خاموش رہا، پھر بیوی نے کہا کہ کیا کہا آپنے؟ تو شوہر اگلے الفاظ کہتا ہے کہ: "نہیں ہو، یعنی "آج سے تم میری ماں نہیں ہو،"میں تمہیں صرف ڈرا رہا تھا اور حقیقت میں شوہر بیوی کو ڈارانا چاہتا تھا کہ وہ شوہر کے ساتھ اپنا رویہ ٹھیک رکھے اور شوہر کی حق تلفی نہ کرے، اس مسئلے میں رہنمائی درکار ہے کہ اب شوہر کو کیا کرنا چاہیے؟

2۔ شوہر اور بیوی کی کسی مسئلہ پر بحث ہوئی  اور نوبت جھگڑے  تک پہنچ گئی اور بیوی میکے میں تھی، اور جھگڑے میں عورتوں کی کافی بھیڑ اور شور و غل کا ماحول تھا، اسی دوران شوہر کو غصہ آیا اور وہ اس شور وغل  میں ہوش وحواس میں بیوی کو دھمکی دیتاہے کہ اگر تم نے اپنا رویہ ٹھیک نہیں کیا تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا، لیکن بیوی اور اس کی ایک رشتہ دار خاتون اس وقت شوہر اور بیوی کے قریب تھی، وہ دونوں اس بات پر بہ ضد ہیں کہ شوہر نے دھمکی نہیں دی بلکہ طلاق دے دی ہے، مگر شوہر اللہ کو حاضر ناظر جان کر قسم کھا کر کہہ رہا ہے کہ میں نے صرف دھمکی دی اور میری نیت واقعی طلاق کی نہیں تھی۔

برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں کہ طلاق واقع ہوئی  یا نہیں؟

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں شوہر کے   الفاظ   کہ:"آج سے تم میری ماں،"  سے بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوئی، میاں بیوی کا رشتہ بدستور قائم ہے، البتہ ایسے الفاظ کا استعمال پسندیدہ نہیں ہے، لہٰذا  شوہر  کو آئندہ اس طرح کے الفاظ استعمال کرنے سے اجتناب  کرنا چاہئے۔

2۔ صورتِ مسئولہ میں عورت دعوی کر رہی ہے کہ اسے اس کے شوہر نے طلاق دی ہے اور اس دعوی پر اس  کے پاس  صرف ایک عورت بطورِ گواہ موجود ہے اور  صرف ایک عورت کی گواہی کسی معاملے کو ثابت کرنے کے لیے شرعاً ناکافی ہے، لہٰذا اگر شوہر حلفاً یہ بات کہہ رہا ہے کہ میں نے طلاق نہیں دی ہے، بلکہ صرف طلاق کی دھمکی دی ہے، تو اس صورت میں اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا اور  طلاق واقع نہیں ہوگی۔

سنن ترمذی میں ہے:

"حدثنا علي بن حجر، قال: حدثنا علي بن مسهر، وغيره، عن محمد بن عبيد الله، عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال في خطبته: ‌البينة ‌على ‌المدعي، واليمين على المدعى عليه."

(أبواب الأحكام، ج:3، ص:19،  ط :دار الغرب الإسلامي)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"و قال لها: أنت أمي لا يكون مظاهرا وينبغي أن يكون مكروها ومثله أن يقول: يا ابنتي ويا أختي ونحوه ولو قال لها: أنت مثل أمي أو كأمي ينوي فإن نوى الطلاق وقع بائنا وإن نوى الكرامة أو الظهار فكما نوى هكذا في فتح القدير وإن لم تكن له نية فعلى قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - لا يلزمه شيء حملا للفظ على معنى الكرامة كذا في الجامع الصغير والصحيح قوله هكذا في غاية البيان."

(كتاب الظهار، ج:1، ص:507، ط:سعيد)

رد المحتارمیں ہے:

"والمرأة ‌كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه. والفتوى على أنه ليس لها قتله، ولا تقتل نفسها بل تفدي نفسها بمال أو تهرب، كما أنه ليس له قتلها إذا حرمت عليه وكلما هرب ردته بالسحر. وفي البزازية عن الأوزجندي أنها ترفع الأمر للقاضي، فإنه حلف ولا بينة لها فالإثم عليه. اهـ. قلت: أي إذا لم تقدر على الفداء أو الهرب ولا على منعه عنها فلا ينافي ما قبله."

(كتاب الطلاق، ج:3، ص:251، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100601

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں