بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی والدین شوہر دونوں میں سے کس کی اطاعت کرے؟


سوال

1) ہماری شادی کو 1 سال ہوگئے بیوی میکے میں رہائش پذیر ہے جبکہ میرا 5 مہینے کا بچہ بھی اسی کے ساتھ ہی ہے ، اور وہاں ایک عامل (نامحرم مرد کسی بھی قسم کا کوئی رشتہ نہیں لگتا) کا مستقل آنا جانا رہتا ہے جو کہ شوہر کو ناپسند ہے اس لیے شادی سے پہلے بیوی کومنع کیا گیا تھا کہ اس سے پردہ کریں ، اس کے سامنے نہ جائے اور اس کے سامنے سے نہ گزرے ، جبکہ "سسرال والے (ساس ، سالیاں) اس عامل کے سامنے ایسے بیٹھتے ہیں جیسے وہ اپنے سگا چچا ہو" اب بیوی میکے میں رہ کر اس عامل سے تعویذ دلاکر ساس نے اپنی بیٹی کے گلے میں ڈال دیا اور کہا کہ جسم میں جلن ہو رہی ہے ( میکے میں بیوی کو سسرال والے بٹھاکے رکھ کے داماد سے الگ گھر کا مطالبہ کرنے کے لیے) اب بیوی اس عامل کے سامنے بیٹھتی ہے ، جو کہ شوہر کو بالکل برداشت نہیں اور شوہر کی مرضی سسرال والوں  کو برداشت نہیں ۔

قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ اس صورت میں شوہر کی اطاعت ضروری ہے یا والدین کی ؟

2) نومولود بچے کو اپنے والدین کی  ملاقات سے سسرال والے روک سکتےہیں یا نہیں   ؟

جواب

واضح رہےکہ ازدواجی تعلق میں ایک ساتھ رہتےہوئے میاں بیوی میں سے ہر ایک کے ذمہ دوسرے کے حقوق ہیں،جن کو اداکرنا دونوں کی اخلاقی ذمہ داری ہے،تاہم اس تعلق میں ایک دوسرے کےلیےقربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں،اگر کسی وقت  ایک پرکوئی مشکل وقت آئے تو دوسرےکو اس کا سہارا بنتےہوئےاس کامکمل ساتھ دینا چاہیے،چھوٹی چھوٹی باتوں کو اختلاف کا سبب نہیں بنانا چاہیے،بیوی کے ذمہ شوہر،والدین اوربہن بھائیوں میں ہر ایک کا حق ہے،شریعتِ مطہرہ میں عورت کو جائز کام میں استطاعت کے مطابق شوہر کی مکمل فرمانبرداری کا حکم دیا گیا ہے، اگر شوہر بیوی کو کسی جائز بات کاحکم دے تو بیوی پر استطاعت کےمطابق اس کی بات کا ماننا لازم ہے، ہاں خلافِ شرع امور میں شوہر کی اطاعت جائزنہیں ہے،نیز  اولاد کے ذمہ لازم ہے کہ وہ والدین کےبھی شریعت کے موافق ہر حکم کو بجالائیں،ان کی کسی قسم کی نافرمانی سےاوردل آزاری سے محفوظ رہیں۔

دوم :اسی طرح عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ بناکسی شدید شرعی یا طبعی مجبوری کے نامحرم کے سامنے بغیر شرعی پردے کا آئے ۔

سوم :شوہر کے ذمہ بیوی کا نان نفقہ اور رہائش کا انتظام ہے، رہائش سے مراد ایسا کمرہ جس میں شوہر کے گھر والوں کی مداخلت نہ ہو، نیز اگر بیوی شوہر کے گھر والوں کے ساتھ مشترکہ طور پر کھانا پکانا اور کھانا نہیں چاہتی تو  الگ پکانے کا انتظام کرنا ضروری ہے، یہ سہولت والدین کے ساتھ  ایک ہی گھر میں فراہم کردے تب بھی ذمہ داری پوری ہوجاتی ہے، الگ جگہ پر گھر لے کر دینا ضروری نہیں، باقی اگر شوہر الگ گھر میں ٹھہرانے کی استطاعت رکھتا ہے اور اس میں مصلحت سمجھتا ہے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔

صورتِ مسئولہ میں  بیوی کےلیے شوہر کی اطاعت کو ترجیح دینا ضروری ہے،بشرطیکہ وہ کام شرعاًناجائز نہ ہو اوربیوی کی طاقت اوروسعت کے مطابق ہو،اس لیے کہ  شادی کے بعدبیوی شوہر کے تابع ہوتی ہے وہ جس حالت میں اور جہاں رہے بیوی کو اس کے ساتھ تابع ہوکر رہناضروری ہے،البتہ والدین کا ادب اوراحترام  اور ان کی خدمت کرنابھی ضروری ہے۔

اسی طرح شوہرپر بھی لازم ہے کہ اپنی بیوی کے حقوق و عزت نفس کا خیال رکھے ،اور اس کی جملہ حقوق پورا کرنے کی کوشش کرے ، نیز والدین اگر بیٹی کو عامل سے دم وغیرہ کرانے کے لیے اس کے سامنے بے پردہ جانے کا کہیں تو ان کی بات نہ مانی جاۓبلکہ اس صورت میں شوہر کا منع کرنا بالکل درست ہے اور شوہر کی اطاعت ہی لازم ہے۔

2۔سسرال والوں کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ بچے  کو اس کے والدین سے ملاقات کرنے سے روکیں ،اگر وہ ایسا کریں گے تو وہ سخت گناہ گار ہو ں گے ۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ."(سورۃ النساء،آیت نمبر:34)

ترجمہ:"مرد حاکم ہیں عورتوں پر اس سبب سے کہ اللہ تعالیٰ نے بعضوں کو بعضوں پر فضیلت دی ہے اور اس سبب سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں ۔"(بیان القرآن)

         حدیث مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لو كنت آمر أحداً أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها» . رواه الترمذي."

(مشکاۃ المصابیح، 2/281،  باب عشرۃ النساء، ط: قدیمی)

ترجمہ:" رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں کسی کو یہ حکم کرسکتا کہ  وہ کسی (غیر اللہ) کو سجدہ کرے تو میں یقیناً عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔"

(مظاہر حق، 3/366، ط؛  دارالاشاعت)

ایک اور حدیث مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «المرأة إذا صلت خمسها وصامت شهرها وأحصنت فرجها وأطاعت بعلها فلتدخل من أي  أبواب الجنة شاءت» . رواه أبو نعيم في الحلية."

(مشکاۃ المصابیح، 2/281،  باب عشرۃ النساء، ط: قدیمی)

ترجمہ:"  حضرت انس  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس عورت نے  (اپنی پاکی کے  دنوں میں پابندی کے ساتھ) پانچوں وقت کی نماز پڑھی،  رمضان کے  (ادا اور قضا) رکھے،  اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی  اور اپنے خاوند  کی فرماں برداری کی  تو (اس عورت کے لیے یہ بشارت ہےکہ) وہ جس دروازہ سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔"

(مظاہر حق، 3/366، ط: دارالاشاعت)

مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن النواس بن سمعان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا ‌طاعة ‌لمخلوق في معصية الخالق."

(کتاب الامارۃ والقضاء،الفصل الثانی،1092/2،ط:المکتب الاسلامی)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"الولد متى كان عند أحد الأبوين لا يمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعاهده كذا في التتارخانية ناقلا عن الحاوي."

(کتاب الطلاق ،باب فی الحضانہ ،ج:1،ص:543،ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وعليها أن تطيعه في نفسها، وتحفظ غيبته؛ ولأن الله عز وجل أمر بتأديبهن بالهجر والضرب عند عدم طاعتهن، ونهى عن طاعتهن بقوله عز وجل {فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا} [النساء: 34] ، فدل أن التأديب كان لترك الطاعة، فيدل على لزوم طاعتهن الأزواج."

(کتاب النکاح،فصل وجوب طاعۃ الزوج الخ،334/2،ط:دارالکتب العلمیۃ)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك". 

(کتاب النکاح،الباب السابع عشر في النفقات 1/556، ط: ماجدية)

فتاوى شامی میں ہے:

"إن أمكنه أن يجعل لها بيتا على حدة في داره ليس لها غير ذلك".

 (کتاب النکاح ،مطلب في مسكن الزوجة 3/601، ط: سعيد)

باقیاتِ فتاویٰ رشیدیہ میں ہے:

"نقل مضمون  مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب رحمہ اللہ 

اطاعت والدین کی اولاد پر مطلقا فرض ہے، خواہ متزوج ہو خواہ متعذب ،امور مباحہ میں نہ منکر میں، لا طلاق، لقول تعالی :وَبِالۡوَالِدَينِ اِحسَانًا‌ ؕ۔۔........الحاصل اطاعت امر مشروع کی بر احسان ہے اور یہی فرض اولاد پر ہے اور احادیث و ایات اس میں کثیر ہیں اور بدون اطاعت کے برتمام نہیں ہوتا....زوجہ پر زوج کی اطاعت بھی امور زوجیت میں فرض ہے اور سوائے اس کے موکد ہے نہ فرض ،قولہ تعالیٰ: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ۔ .......بعض نے کہا کہ دختر پر اطاعت والدین کی مثل قبل نکاح کے باقی ہے ،کوئی حصہ ساکت نہیں ہوتا، احادیث اور وجوب حق زوج کا معنی وجوب حق والدین کو نہیں ہے جیسا والد ہ کا حق والد کے حق کو مزاحم نہیں اور والدین اگر زوج کی خدمت سے مثلا منع کریں تو وہ معصیت ہے، اس میں اطاعت جائز نہیں، لہذا کچھ تمانع نہیں، حق تعالی کا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور والد کا اور والدہ اور زوج سب کا حق و اطاعت ہے ۔"

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144503100706

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں