بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی وفات کے بعد خاوند کے لیے اُس کا چہرہ دیکھنے اور اُس کو قبر میں اُتارنے کا حکم


سوال

بیوی کا انتقال ہو تو شوہر کے لیے اس کے چہرہ کو دیکھنا جائز ہے؟ اور کیا شوہر بیوی کو قبر میں اتار سکتا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  بیوی کی وفات کے بعداُس کے خاوند کے لیے اس کا چہرہ دیکھناجائز ہے،البتہ (چہرہ و جسم کا کوئی بھی حصہ) چھونا منع ہے۔

نیز شوہر کا اپنی بیوی کو اس طرح قبر میں اتارنا کہ جسم کو ہاتھ نہ لگے جائز ہے،تاہم دوسرے محارم( باپ، بیٹا، بھائی، چچا، ماموں وغیرہ میں سے)کوئی موجود ہوں تو ان کا حق زیادہ ہے۔

فتاوی محمودیہ میں ہے:

عورت کو اس کا شوہر قبر میں اتار سکتا ہے یا نہیں؟

سوال[4192] : شوہر کی حیات میں اگر عورت کا انتقال ہوجائے تو مرحومہ حلقہ شوہریت سے نکل جاتی ہے یا نہیں اور مرد کا بحیثیتِ نا محرم ہونا درست ہے یا نہیں؟ نیز حقیقی محرم جیسے باپ، بھائی، بیٹا وغیرہ کی موجودگی میں شوہر مذکور مرحومہ کو قبر میں اتار سکتا ہے یا نہیں؟

الجواب حامداً و مصلیاً:

انتقال سے نکاح ختم ہوجاتا ہے، ہاتھ نہیں لگا سکتا، البتہ دیکھنا درست ہے۔ جب محرم باپ، بھائی وغیرہ موجود ہوں تو تو وہ مقدم ہیں، وہی قبر میں اتاریں، شوہر کو بھی اتارنا اور جنازہ کو ہاتھ لگانا درست ہے۔

(باب الجنائز، ج:9، ص:63، ط:ادارۃ الفاروق) 

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌ويمنع ‌زوجها من غسلها ومسها لا من النظر إليها على الأصح) منية....

وفی الرد:أشار إلى ما في البحر من أن من شرط الغاسل أن يحل له النظر إلى المغسول فلا يغسل الرجل المرأة وبالعكس".

(کتاب الصلاۃ، باب صلاة الجنازة، ج:2، ص:198، ط:سعيد)

وفيه أيضاً:

"إذا ماتت فلا يغسلها لانتهاء ملك النكاح لعدم المحل ‌فصار أجنبيا".

(کتاب الصلاۃ، باب صلاة الجنازة، ج:2، ص:199، ط:سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"‌إذا ‌ماتت ‌المرأة حيث لا يغسلها الزوج؛ لأن هناك انتهى ملك النكاح لانعدام المحل، فصار الزوج أجنبيا".

(كتاب الصلاة، فصل بيان الكلام فيمن يغسل، ج:1، ص:304، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وذو الرحم المحرم أولی بادخال المرأة من غیرهم، وکذا ذو الرحم غیر المحرم أولی من الأجنبي".

( کتاب الصلاة، باب الجنائز، الفصل السادس في القبر والدفن والنقل من مکان الی مکان، ج:1، ص:166، ط:رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503102243

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں