بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی ران میں دخول کا حکم


سوال

کیا بیوی کے پچھلی طرف رانوں میں شرمگاہ ڈال سکتے ہیں اگر دبر میں دخول نہ کرے۔

جواب

  شوہر اور بیوی کے لیے ایک دوسرے کے جسم سے استمتاع (لذت حاصل ) کرنا  شرعا جائز ہے،البتہ فرج (آگے کی شرمگاہ) میں دخول کیے بغیر بیوی کے دیگر اعضاء کے ذریعہ انزال کرنا مکروہ تنزیہی ہے ؛ لہذا  شوہر  کا اپنی بیوی کے دبر میں دخول کیے بغیر اپنی بیوی کی  رانوں  سے خواہش  پوری کرنا جائز ہےالبتہ  اگر اس طریقہ سے شوہر کا انزال بھی ہوجائے  تو مکروہ تنزیہی ہوگا۔ نیز اس قسم کے فعل کی عادت نہ بنائی جائے کہ اس میں دخول دبر کا اندیشہ اور خطرہ ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ويجوز أن يستمني بيد زوجته وخادمته اهـ وسيذكر الشارح في الحدود عن الجوهرة أنه يكره ولعل المراد به كراهة التنزيه فلا ينافي قول المعراج يجوز تأمل وفي السراج إن أراد بذلك تسكين الشهوة المفرطة الشاغلة للقلب وكان عزبا لا زوجة له ولا أمة أو كان إلا أنه لا يقدر على الوصول إليها لعذر قال أبو الليث أرجو أن لا وبال عليه وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة فهو آثم اهـ.

بقي هنا شيء وهو أن علة الإثم هل هي كون ذلك استمتاعا بالجزء كما يفيده الحديث وتقييدهم كونه بالكف ويلحق به ما لو أدخل ذكره بين فخذيه مثلا حتى أمنى، أم هي سفح الماء وتهييج الشهوة في غير محلها بغير عذر كما يفيده قوله وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة إلخ؟ لم أر من صرح بشيء من ذلك والظاهر الأخير؛ لأن فعله بيد زوجته ونحوها فيه سفح الماء لكن بالاستمتاع بجزء مباح كما لو أنزل بتفخيذ أو تبطين بخلاف ما إذا كان بكفه ونحوه وعلى هذا فلو أدخل ذكره في حائط أو نحوه حتى أمنى أو استمنى بكفه بحائل يمنع الحرارة يأثم أيضا ويدل أيضا على ما قلنا ما في الزيلعي حيث استدل على عدم حله بالكف بقوله تعالى {والذين هم لفروجهم حافظون} [المؤمنون: 5] الآية وقال فلم يبح الاستمتاع إلا بهما أي بالزوجة والأمة اهـ فأفاد عدم حل الاستمتاع أي قضاء الشهوة بغيرهما هذا ما ظهر لي والله سبحانه أعلم."

(کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم ج نمبر ۲ ص نمبر ۳۹۹،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100378

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں