بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی اصلاح کا طریقہ


سوال

میری بیوی شروع سے برقعہ پہنتی ہےاور اچانک وہ برقعہ کی جگہ چادر کا استعمال کرنے لگ  گئی کبھی کبھی، جس پر میں نے ایک بار سختی سے اور ایک بار بہت نرمی کے ساتھ سمجھایا کہ ایسا نہ کرو۔بیوی نے میری بات مانتے ہوئے اس بات کا اقرار کیا کہ اگر وہ برقعہ نہ پہنے تو میں اس کو  باہر لے کر نہ جاؤں، مگر بیوی نے پھر سے بغیر برقعہ کے جانے کی کی تو میں اس کو لے کر نہیں گیا، واپسی پر جھگڑا ہو اور میں نے اپنی بات منوانے کے لیے ایک طلاق دے دی؛ تاکہ بیوی کو اندازہ ہو جائے کہ یہ ایک حد ہے، اس کو پار نہیں کرنا۔میں نے اسی وقت رجوع بھی کیااور بعد میں اس کے گھر والوں کے سامنے بھی رجوع کیا اور اس بات کی معافی بھی مانگی اپنی بیوی سے کہ اس معاملےکو پہلے بڑوں  کے سامنے رکھنا تھامگر نہ رکھ سکا۔میرا یہ عمل کیا شرعیت کے مطابق تھا؟ کیوں کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ  اتنی سی بات پر طلاق نہیں دیتے۔

جواب

قرآنِ کریم میں نافرمان بیوی کی اصلاح کے تین طریقے ذکر کیے گئے ہیں:

پہلادرجہ یہ ہے کہ اسے نرمی سے سمجھایاجائے ،اگروہ محض سمجھانے سے بازنہ  آئے تو دوسرادرجہ یہ ہے کہ اس کابسترالگ کردیاجائے ،تاکہ اس کو شوہر کی ناراضی کااحساس ہو اوراپنے فعل پرنادم ہو،اورجوعورت اس طرح  کی شریفانہ  تنبیہ سے بھی متاثر نہ ہوتو پھرشرعاً تادیب کے لیے معمولی مار کی بھی اجازت دی گئی ہے،جس سے اس کے بدن پر نشان نہ پڑیں، نیز چہرے پر نہ مارا جائے۔

اگر ان تین طریقوں  پر بھی وہ باز نہ آئے تو  علماء فرماتے ہیں: پھر  شوہر  کو "ایلاء "  کے ذریعے  بیوی کی اصلاح کی کوشش کرنی  چاہیے،  "ایلاء"  کامطلب یہ ہے کہ شوہراپنی بیوی سے چار ماہ یا اس سے زیادہ مدت کے لیے صحبت نہ کرنے کی قسم کھائے، چار  ماہ  میں اگر وہ  سدہر  جائے تو شوہر بیوی سے رجوع کرے اور قسم کا کفارہ ادا کرے، اور اس صورت میں کوئی طلاق واقع نہ ہوگی، اور اگر چار ماہ کے اندر بھی اس کو احساس نہیں ہوا تو  پھر  چار ماہ گزرنے پر رجوع نہ کرنے کی صورت میں  ایک طلاقِ  بائن  واقع ہوجائے گی۔ 

لہذا صورتِ  مسئولہ  میں  سائل کو  طلاق سے پہلے بیوی کی  اصلاح کے  لیے بتدریج مذکورہ طریقے اپنانے  چاہیے تھے، طلاق  کو بالکل آخری حل کے طور پر رکھنا  چاہیے تھا جب نباہ  بالکل ناممکن ہوجاتا۔ بہرحال! ابھی بھی   سائل نے بہت سمجھ داری کا  مظاہرہ کیا ہے اور  صرف ایک طلاقِ  رجعی دے کر رجوع کرلیا ہے، لیکن آئندہ  سائل کے پاس صرف دو طلاق کا اختیار ہوگا، اور زیادہ محتاط  رہنے کی ضرورت ہوگی۔

قرآنِ کریم میں ہے :

{وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا} [النساء:34]

تفسیر مظہری میں ہے:

"و أما النوع الثاني: فقال: وَاللَّاتِي تَخافُونَ نُشُوزَهُنَّ أي: عصيانهن و تكبرهن، و أصل النشوز الارتفاع، و منه النشز للموضع المرتفع، قيل: معنى تخافون تعلمون، و فى القاموس: جعل من معاني الخوف العلم، و منه وَإِنِ امْرَأَةٌ خافَتْ مِنْ بَعْلِها نُشُوزاً، و قيل: المراد بخوف النشوز خوف دوام النشوز و الإصرار عليه، و لايجوز العقوبة قبل ظهور النشوز، قلت: خوف النشوز يكفي للوعظ فَعِظُوهُنَّ بالقول، يعني: خوّفوهنّ عقوبة الله و الضرب و الهجران وَاهْجُرُوهُنَّ حال كونكم فِي الْمَضاجِعِ إذا لم ينفعهن الوعظ يعني لاتدخلوهنّ في اللحف أو هو كناية عن الجماع أو أن يوليها ظهره في المضجع و هو الأظهر حيث قال في المضاجع و لم يقل: عن المضاجع وَ اضْرِبُوهُنَّ إن لم ينفع الهجران، قال أكثر المفسّرين: يعني: ضربًا غير مبرج أي: غير شاق."

(التفسير المظهري: سورة النساء (2/ 100)،ط. مكتبة الرشدية - الباكستان، الطبعة: 1412 هـ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144301200127

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں