بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا طلاق کا دعوی کرنا اور بچہ باپ کودینے کے عوض پیسوں کا مطالبہ کرنا


سوال

میری شادی فروری 2020ء میں ہوئی،ہمارا گھر اچھے طریقے سے چل رہا تھا،اللہ کے فضل و کرم سے بیٹے کی خوشی مجھے نصیب ہوئی،بیٹے کی پیدائش کے تیسرے روز جب میں اپنی بیوی کو ہسپتال سے گھر واپس لایا تو گھر کو سجانے اور اس کے رشتہ داروں کے تحائف پر بحث ہوئی ،جس پر بیوی نے مجھے اور والدہکو نازیبا الفاظ کہے  اور گالیاں دی،بار بار گالیاں دینے پر جب میں نے اسے منع کیا تو اس نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا،میں نے اسے روکنے کے لیےدھمکی دی کہ"اگر تم نے دوبارہ میری والدہ کو گالی دی تو میں تمھیں چھوڑ دوں گا"،اس پر اس نے زور زور سے چلانا شروع کردیا کہ اسے طلاق ہوگئی ہے،اس کے خاندان والوں نے آکر مجھ سے لڑائی کی  اور اسے لے گئے،اور کہہ رہے ہیں کہ اگر تمھیں اپنابچہ چاہیے تو  بیس لاکھ روپے دو،پھر ہم بچہ دیں گے، کیوں کہ میرے گھر کی قیمت چالیس لاکھ روپے لگی ہے تو گھر کی آدھی قیمت مانگ رہے ہیں،واضح رہے کہ میری بیوی کے مہر  میں "ایک کمرہ مکان مع کچن و باتھروم"طے ہوا تھا،جو  میں نے اسے دے دیا ہے،میں نے طلاقکالفظ بھی نہیں کہا،پروہ لوگجھوٹا مقدمہ کر کے طلاق کی مانگ کر رہے ہیں اور مجھ سے میرے بچے کی رقم مانگ رہے ہیں ،اب پوچھنا یہ ہے کہ طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں اور ان کا بچے کے عوض پیسوں کا مطالبہ کرنا درست ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب  سائل کی بیوی نے اس پر ہاتھ اٹھایا اور والدہ کو گالی دی اور سائل نے  بیوی کو اس جملے سے دھمکی دی کہ"اگر تم نے دوباہ میری والدہ کو گالی دی تو میں تمھیں چھور دوں گا"تو مذکورہ جملے سے سائل کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے  اور  نکاح بدستور قائم ہے،لیکن اگر بیوی پھر بھی طلاق کا دعوی کرے تو چوں کہسائل اس کا انکار کر رہا ہے  تو دونوںاس مسئلے  کو حل کرنے کے لیے کسی مستند  مفتی یا عالمِ دین کو حکم(فیصل) بنائیں اور وہ جو شریعت کے مطابق فیصلہ  دیں دونوں فریق اس پر عمل کریں۔باقی نکاح برقرار ہو یا ختم ہوجائے،بہر دو  صورت بچے کی پرورش کا حق سات سال کی عمر تک اس کی ماں کو حاصل ہوتا ہے،الا یہ کہ وہ بچے کے کسی نا محرم سے شادی کرے تو پرورش کاحق ساقط ہوجاتاہے،لیکن اگر وہ بچے کو رکھنا نہ چاہےتو سسرال والوں کے لیے بچہ باپ کو دینے کی صورت میں پیسوں کا مطالبہ کرنا شرعا جائز نہیں ہے۔تاہم   بچہ اگر ماں کے پاس  ہی ہو تو اس کا نان ونفقہ سائل پر ہی لازم ہوگا۔

وفی العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية :

"صيغة المضارع لا يقع بها الطلاق إلا إذا غلب في الحال كما صرح به الكمال بن الهمام."

(کتاب الطلاق،1/ 38،ط:دار المعرفة)

وفی الفتاوى الهندية:

"نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد كذا في الجوهرة النيرة."

(الباب السابع عشر فی النفقات،1/ 560،ط:رشیدية)

وفی الفتاوى العالمكيرية :

"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدة أو فاجرة غير مأمونة كذا في الكافي. سواء لحقت المرتدة بدار الحرب أم لا، فإن تابت فهي أحق به كذا في البحر الرائق. وكذا لو كانت سارقة أو مغنية أو نائحة فلا حق لها هكذا في النهر الفائق. ولا تجبر عليها في الصحيح لاحتمال عجزها إلا أن يكون له ذو رحم محرم غيرها فحينئذ تجبر على حضانته كي لا يضيع بخلاف الأب حيث يجبر على أخذه إذا امتنع بعد الاستغناء عن الأم كذا في العيني شرح الكنز وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجة بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة، وإن علت، فإن لم يكن للأم أم فأم الأب أولى ممن سواها، وإن علت كذا في فتح القدير."

(کتاب الطلاق،الباب السادس عشر فی الحضانة،1/ 541،ط:رشیدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة كحق الشفعة وعلى هذا لا يجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف.

(قوله: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لا تحتمل التمليك ولا يجوز الصلح عنها. أقول: وكذا لا تضمن بالإتلاف."

(کتاب البیوع،4/ 518،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100782

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں