بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے علاج میں غفلت کرنے پر اس کے انتقال کا ذمہ دار کون؟


سوال

ایک لڑکی فردا کی شادی محمد شہاب سے 15 نومبر 2018 کو ہوئی، شادی کے بعد 31 جولائی 2019 کو ایک بچی پیدا ہوئی، پھر اکتوبر 2019 میں اسے سینے میں تکلیف محسوس ہوئی، جس کا ذکر فردا نے اپنے خاوند سے کیا، لیکن خاوند اور سسرال والوں نے تکلیف کو محسوس نہ کیا اور تکلیف بہت بڑھ گئی، انہوں نے میڈیکل علاج کرانے کے بجائے ہومیو پیتھک علاج کروایا، جب تکلیف میں کمی نہ ہوئی تو اسے والدین کے گھر بھیج دیا اور اس کی ذمہ داری لینے سے منع کردیا، پھر جب والدین نے اس کے ٹیسٹ کروائے تو لڑکی کو آخری درجہ کا کینسر تھا، سسرال والوں کو جب اس علم ہوا تو انہوں نے پھر اس کے علاج سے انکار کردیا، لڑکی کے والدین بالآخر اسے راولپنڈی ہسپتال لائے اور لڑکی کا وہاں انتقال ہوگیا۔

اب آپ سے میرے چند سوال ہیں:

1- شوہر کی غفلت اور اس کے علاج نہ کروانے کی وجہ سے اور میڈیکل رپورٹ کے مطابق ہومیو پیتھک علاج کروانے کی وجہ سے لڑکی کی موت ہوئی تو کیا لڑکی کی موت کا ذمہ دار شوہر ہے؟

2- سسرال والوں کا لڑکی کے علاج کروانے کے بجائے اپنے بیٹے کے لیے رشتہ تلاش کرتے رہنا، آیا شریعت کی رو سے یہ جائز ہے؟

3- لڑکی کا مہر 12 تولہ سونا اور جہیز کا سامان، یہ کس کا حق ہے اور لڑکی کے والدین یہ واپس لے سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

1- صورتِ مسئولہ میں کینسر کی بیماری کے سبب انتقال کرجانے والی لڑکی کے شوہر اور اس کے خاندان والوں نے اگر اپنی طاقت و وسعت کے مطابق اس کا علاج معالجہ کیا تھا اور کسی عذر کی بناء پر مزید لڑکی کا علاج کرانے سے قاصر رہے تھے تو ایسی صورت میں شوہر اور اس کے خاندان والے لڑکی کی موت کے ذمہ دار نہیں اور نہ انہیں اس کا گناہ ہوگا، لیکن اگر باوجود علاج کراسکنے کے انہوں نے لاپرواہی اور غفلت سے کام لیا ہو تو پھر وہ علاج معالجہ کرانے میں غفلت اور کوتاہی کرنے کی وجہ سے گناہ گار ہوئے ہیں اور انہیں چاہیے کہ اس پر صدقِ دل سے توبہ و استغفار کریں۔

2- رشتہ تلاش کرنا لڑکے والوں کا حق ہے، جب چاہیں تلاش کرسکتے ہیں۔

3- مہر اور جہیز کا سامان سب لڑکی کا حق ہے اور مرحومہ کے دیگر سامان کے ساتھ مہر کی رقم اور جہیز کا سامان بھی مرحومہ کے ترکہ میں شامل ہے جو کہ شوہر سمیت مرحومہ کے دیگر ورثاء میں شرعی حساب سے تقسیم ہوگا۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ (البقرة: ۲۲۸)
"ترجمہ: اور عورتوں کے بھی حقوق ہیں جو کہ مثل ان ہی کے حقوق کے ہیں جو ان عورتوں پر ہیں۔"

فتاوی شامی میں ہے:

"كما لا يلزمه مداواتها.

(قوله: كما لا يلزمه مداواتها) أي إتيانه لها بدواء المرض ولا أجرة الطبيب ولا الفصد ولا الحجامة هندية عن السراج. والظاهر أن منها ما تستعمله النفساء مما يزيل الكلف ونحوه."

(ج:3، ص:575، کتاب الطلاق، باب النفقۃ، ط:سعید)

الفقه الإسلامي وأدلتہ میں ہے:

"نفقات العلاج: قرر فقهاء المذاهب الأربعة  أن الزوج لا يجب عليه أجور التداوي للمرأة المريضة من أجرة طبيب وحاجم وفاصد وثمن دواء، وإنما تكون النفقة في مالها إن كان لها مال، وإن لم يكن لها مال، وجبت النفقة على من تلزمه نفقتها؛ لأن التداوي لحفظ أصل الجسم، فلا يجب على مستحق المنفعة، كعمارة الدار المستأجرة، تجب على المالك لا على المستأجر، وكما لا تجب الفاكهة لغير أدم. ويظهر لدي أن المداواة لم تكن في الماضي حاجة أساسية، فلا يحتاج الإنسان غالبا إلى العلاج؛ لأنه يلتزم قواعد الصحة والوقاية، فاجتهاد الفقهاء مبني على عرف قائم في عصرهم. أما الآن فقد أصبحت الحاجة إلى العلاج كالحاجة إلى الطعام والغذاء، بل أهم؛ لأن المريض يفضل غالبا ما يتداوى به على كل شيء، وهل يمكنه تناول الطعام وهو يشكو ويتوجع من الآلام والأوجاع التي تبرح به وتجهده وتهدده بالموت؟! لذا فإني أرى وجوب نفقة الدواء على الزوج كغيرها من النفقات الضرورية، ومثل وجوب نفقة الدواء اللازم للولد على الوالد بالإجماع، وهل من حسن العشرة أن يستمتع الزوج بزوجته حال الصحة، ثم يردها إلى أهلها لمعالجتها حال المرض؟"

(ج:10، ص:7380، القسم السادس الاحوال الشخصية، الباب الثالث، الفصل الخامس، ط:دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌لو ‌جهز ابنته في حال صغرها أو حال كبرها لكن سلمه إليها فإنه يكون لها."

(ج:4، ص:392، کتاب الہبۃ، الباب السادس، ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100349

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں