بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے زنا اور کفریہ باتوں کے بعد نکاح کا حکم


سوال

چند سال قبل میں نے اپنی بیوی کے ساتھ ایک نوجوان لڑکے کو صبح سحری کے وقت اپنے گھر میں دیکھا، بعد میں میری بیوی نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر اقرار کیا کہ آئندہ ایسی غلطی نہیں کروں گی ،پھر چند ماہ بعد میں نے موبائل پراس کا اور اس لڑکے کا وائس میسج  سنا،اس کے علاوہ 6 ماہ بعد اس کی برہنہ تصویر میرے موبائل پر آئی،اور انہیں دنوں میں اس لڑکے اور میری بیوی کی ویڈیو بھی میرے موبائل پر آئی جو میں نے دیکھی،پھرحال ہی میں وہ تین دن اس لڑکے کے ساتھ ناران کاغان میں ہوٹل میں رہی ہے،تو میں نے اس بات پر اس کو قرآن دیا، مگر اس نے قرآن کو نعوذ باللہ زمین پر پھینکا اور ساتھ یہ کہتی ہے، کہ نہ میں قرآن کو جانتی ہوں، نہ اللہ کو جانتی ہوں، اور نہ نبی کو جانتی ہوں، میرے لیے یہ لڑکا سب کچھ ہے، میرا خدا بھی، میرا قرآن بھی، میرا نبی بھی، اس لڑکے کی عمر 35 سال ہے، اور اس کی اپنی دو بیویاں ہیں،میری بیوی کی عمر 45 سال ہے، اور ہمارے  سات بچے ہیں، تین بچیوں کی شادی بھی ہوگئی ہے، اور ان کے بھی بچے ہیں،میری عمر 53 سال ہے، الحمدللہ مجھ میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں ہے،میری ماہانہ آمدن 70 ہزار روپے ہے، مگر اس لڑکے کے پاس گاڑی ہے، جس کی وجہ سے اس کو اپنے ماں باپ ،  بہن بھائیوں اور  خاندان کی عزت کی کوئی پرواہ نہیں،اس نے میری عزت اور میری دولت کو بھی ضائع کیا ہے،اور  میری عزت کو خاک میں ملا دیا ہے، جب کہ ہمارا خاندان دینی اور مذہبی خاندان ہے،مذکورہ واقعہ کے بعد اب مجھے پوچھنا یہ ہے کہ:

کیا اب اتنی غلطیاں،اور سنگین جرم کے بعد اس کو میں اپنے پاس رکھ سکتا ہوں یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ زنا ایک بدترین گناہ ہے، جس کے بارے میں قرآن و حدیث میں جابجا وعیدیں آئی ہیں، اور اگر شادی شدہ  اور بال بچوں والی عورت زنا کرے تو اس کی حرمت اور قباحت دوچند ہوجاتی ہے اور اس کی سزا بھی دوچند ہو جاتی ہے ،اسی طرح اللہ، رسول او ر قرآن کا انکار کرنا  بھی سنگین جرم ہے، جس سے انسان کافر ہو جاتا ہے،لہذا  اگرصورتِ  مسئولہ میں  عورت نے   قرآن کریم، اللہ،اور رسول کو ماننے سے انکار کیا ہے تو وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہوگئی ہے، تا ہم  نکاح برقرار ہے،اسے آپ اپنے پاس روک کر توبہ تائب ہونے اور دوبارہ اسلام قبول کرنے پر مجبور کریں، اور اگر وہ ناجائز تعلقات سے باز  نہ آۓ  اور  دوبارہ  اسلام قبول بھی نہ کرے تو اس کو  طلاق دے کر علیحدہ کردیا جائے۔

حیلۂ ناجزہ میں ہے:

"اس فتوے کا یہ  حاصل ہوا کہ عورت بدستور سابق اسی خاوند کے قبضہ میں رہے گی کسی دوسرے شخص سے ہرگز نکاح جائز نہیں لیکن جب تک تجدید اسلام کر کے تجدید نکاح نہ کرے اس وقت تک اس کے ساتھ جماع اور دواعی جماع کو جائز نہ کہا جاۓ گا۔"

(خلاصہ فتوے، ص:120، ط:دار الاشاعت)

مسند بزار میں ہے:

"عن عبد الله بن بريدة، عن أبيه، رضي الله عنه: إن السماوات السبع والأرضين السبع والجبال ليلعن الشيخ الزاني، وإن فروج الزناة لتؤذي أهل النار بنتن ريحها."

(مسند بریدۃ بن الحصیب رضی اللہ عنه،  ج:10، ص:310، ط:مکتبة العلوم و الحکم ۔ المدینة المنورۃ)

ترجمہ:

"ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں شادی شدہ زنا کار پر لعنت کرتی ہیں اور جہنم میں ایسے لوگوں کی شرم گاہوں سے ایسی سخت بدبو پھیلے گی جس سے اہلِ جہنم بھی پریشان ہوں گے اور آگ کے عذاب کے ساتھ ان کی رسوائی جہنم میں ہوتی رہے گی۔"

صحیح بخاری میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: "‌لا ‌يزني ‌الزاني حين يزني وهو مؤمن، ولا يسرق حين يسرق وهو مؤمن، ولا يشرب حين يشربها وهو مؤمن."

(باب إثم الزناة، ج:8، ص:453، ط:دار التأصيل - القاهرة)

ترجمہ:

"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: زنا کرنے والا زنا کرنے کے وقت مؤمن نہیں رہتا، چوری کرنے والا چوری کرنے کے وقت مؤمن نہیں رہتا، اور شراب پینے والا شراب پینے کے وقت مؤمن نہیں رہتا۔"

جمع الأنہر فی شرح ملتقى الأبحر میں ہے:

"فما يكون كفرًا بالاتفاق يوجب إحباط العمل كما في المرتد وتلزم إعادة الحج إن كان قد حجّ ويكون وطؤه حينئذ مع امرأته زنا والولد الحاصل منه في هذه الحالة ولد الزنا، ثم إن أتى بكلمة الشهادة على وجه العادة لم ينفعه ما لم يرجع عما قاله؛ لأنه بالإتيان بكلمة الشهادة لايرتفع الكفر، وما كان في كونه كفرًا اختلاف يؤمر قائله بتجديد النكاح وبالتوبة والرجوع عن ذلك احتياطًا، وما كان خطأً من الألفاظ لايوجب الكفر فقائله مؤمن على حاله ولايؤمر بتجديد النكاح ولكن يؤمر بالاستغفار والرجوع عن ذلك، هذا إذا تكلم الزوج، فإن تكلمت الزوجة ففيه اختلاف في إفساد النكاح، وعامة علماء بخارى على إفساده لكن يجبر على النكاح ولو بدينار وهذا بغير الطلاق."

(باب المرتد، الصبي العاقل إذا ارتد، ج:1، ص:687، ط:دار إحياء التراث العربي، بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وشرائط صحتها العقل) والصحو (والطوع) فلا تصح ردة مجنون، ومعتوه وموسوس، وصبي لايعقل وسكران ومكره عليها، وأما البلوغ والذكورة فليسا بشرط بدائع"
قال ابن عابدین رحمه الله:

"قال في البحر والحاصل: أن من تكلم بكلمة الكفر هازلاً أو لاعبًا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده، كما صرح به في الخانية. ومن تكلم بها مخطئًا أو مكرهًا لايكفر عند الكل، ومن تكلم بها عامدًا عالمًا كفر عند الكل، ومن تكلم بها اختيارًا جاهلاً بأنها كفر ففيه اختلاف. اهـ۔"

(‌‌باب المرتد، ج:4، ص:224، ط:دار الفكر - بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601100807

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں