بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے طلاق کا دعوی کرنے کی صورت میں طلاق کا حکم


سوال

ہم حال ہی میں نیوزی لینڈ پہنچے ہیں، میری اہلیہ مقامی این جی اوز سے منسلک ہوگئیں ہیں، اور 14 جنوری 2023 کو صبح کے وقت ہمارے درمیان بہت معمولی سے بات پر  جھگڑا  ہوا جو حل ہوگیا، حالاں کہ وہ کسی سے مسلسل رابطے میں تھی اس نے پولیس کو فون کیا، پولیس نے طریقہ کار کے مطابق دونوں فریقین کو 48 گھنٹے کی مدت کے لیے الگ ہونے کو کہا، 48 گھنٹے بعد میں جب واپس آیا تو گھر میں بیوی بچے موجود نہیں  تھے، تفتیش کرنے پر  معلوم ہوا  کہ وہ کسی این جی او کے ساتھ رہ رہی ہے۔ اب ایک ماہ سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد، اس نے مجھ پر کچھ غیر حقیقت پسندانہ الزامات لگائے (بظاہر  محفوظ گھر میں اپنے قیام کو بڑھانے کے لیے) ایک جھوٹا دعوی کر کے کہ میں اسے طلاق دے دی  ہے جو کہ بالکل بے بنیاد ہے، لہذا ایسے حالات میں اپنی قسم کی  بنیاد پر فتوی لینے کی کوشش  کر رہا ہوں کہ  میں  نے اسے  طلاق  نہیں دی اور وہ میرے نکاح میں  ہے، براہ کرم رہنمائی کریں کیونکہ وہ کسی  مفتی سے رابطہ کرنے اور ان کےسامنے پیش ہونے کے لیے تیار  نہیں ہے، لہذا  شوہر کی قسم کی بنیاد پر فتوی صادر فرمائیں ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل نے بیوی کو کوئی طلاق نہیں دی تو بیوی کا طلاق دینے کا دعویٰ کرنا بلا شرعی ثبوت (دو گواہوں) کے معتبر نہیں۔ اگر  سائل کی بیوی اگر گواہوں کے ذریعہ طلاق دینے کو ثابت کردے تو طلاق واقع ہوجائے گی، اور اگر بیوی کے پاس  دو گواہ موجود نہیں ہیں، اور سائل بیوی کے سامنے قسم کھا کر طلاق دینے سے انکار کردیتا ہے تو بیوی کا طلاق کا دعوی کالعدم ہوگا طلاق واقع نہ ہوگی۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(فإن اختلفا في وجود الشرط) أي ثبوته ليعم العدمي (فالقول له مع اليمين) لإنكاره الطلاق".

(کتاب الطلاق، باب التعلیق، ج:3، ص:356، ط:سعید)

 مبسوط سرخسی میں ہے:

"(قال): وإذا شهد شاهدان على رجل أنه طلق امرأته ثلاثا وجحد الزوج، والمرأة ذلك فرق بينهما؛ لأن المشهود به حرمتها عليه، والحل، والحرمة حق الله تعالى فتقبل الشهادة عليه من غير دعوى كما لو شهدوا بحرمتها عليه، والحل، والحرمة حق الله تعالى فتقبل الشهادة عليه بنسب أو رضاع أو مصاهرة".

(کتاب الطلاق، باب الشهادة في الطلاق، ج:6، ص:145،ط:دار المعرفة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144508100952

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں