بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے ساتھ زبردستی جماع کرنے کا حکم


سوال

میری شادی کو 20 سال ہوچکے ہیں، لیکن میرے شوہر کی ہمبستری کرنے کی خواہش میں کوئی کمی نہیں آئی، ان کے اندر صحبت کرنے کی خواہش بہت زیادہ ہے، ہر ایک دن چھوڑ کر دوسرے دن صحبت کرتے ہیں، اگر میں کہوں کہ ہفتہ میں ایک دو دن کیا کریں، تو کہتے ہیں کہ: "میں روز کروں گا اور رم مجھے منع نہیں کروگی" اور اگر میں کہوں کہ: "میری طبیعت خراب ہے، آج نہ کریں،" تو وہ شور شرابہ شروع کر دیتے ہیں، ساتھ والے کمرہ میں جوان بچیاں سو رہی ہوتی ہیں، ان کی پرواہ نہیں کرتے، کبھی کہتی ہوں کہ آرام سے بولیں بچیاں سن لیں گی، تو کیا سوچیں گی؟ تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے کمرہ میں چاہے کچھ بھی کریں۔

میں اکثر انہیں کہتی ہوں کہ آپ دوسری شادی کرليں، میری طرف سے اجازت ہے، تو وہ کہتے ہیں کہ تم خود لڑکی ڈھونڈ کر لاؤ اور میری دوسری شادی کراؤ۔

اور جب میری ماہواری شروع ہوتی ہے، تو ایک ہفتہ تک وہ مجھے صحبت کرنے کے لیے بہت پریشان کرتے ہیں، وہ کبھی کہتے ہیں کہ ميری شرمگاہ کو اپنے منہ سے چوس کر مجھے فارغ کرو اور کبھی وہ میری رانوں کے درمیان شرمگاہ کو حرکت دے کر فارغ ہوتے ہیں اور کبھی کہتے ہیں کہ دبر کے راستہ سے مجھے کرنے دو اور پہلے 4 سے 5 دفعہ دبر کے راستہ سے بھی کیا ہے اور تکلیف کی وجہ سے میں روتی تھی، لیکن ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، پہلے دبر کے راستہ سے جبرا زبردستی کیا تھا اور ابھی بھی کہتے ہیں کہ تم خوشی سے ایک دفعہ کرنے دو تو میں کبھی بھی نہیں کہوں گا، میں کہتی ہوں کہ دبر کے راستہ سے کرنا حرام ہے، میں جان بوجھ کر حرام کیوں کروں؟ تو کہتے ہیں کہ میں کہہ رہا ہوں تو مجھے کرنے دو، گناہ ملے گا تو مجھے ملے گا، تمہیں نہیں ملے گا، اور کبھی کہتے ہیں کہ اللہ نے دو راستے دیے ہیں، ایک بند ہو تو دوسرے میں کرنا چاہیے، تم میری کھیتی ہو، میں جہاں سے چاہوں کروں۔

میں اپنے شوہر کی ان حرکات سے بہت پریشان ہوں، خدارا میری مدد کریں اور میرے شوہر کی صحیح راہنمائی کریں۔

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے شوہر کو اپنی بیوی سے ہمبستری کرنے کا پورا پورا حق دیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ شریعت نے شوہر پر یہ بھی لازم کیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے حقوق  اور اس کی صحت اور رغبت کا لحاظ بھی رکھے اور اس کی استطاعت اور طاقت سے زیادہ اس کو جماع کرنے پر مجبور نہ کرے اور شریعت نے آگے کے راستہ سے ہمبستری کرنے کو حلال اور پیچھے کے راستہ سے جماع کرنے کو  ناجائز اور حرام قرار دیا ہے اور ايسی حرکت کرنے والے شخص پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔

صورتِ مسئولہ میں شوہر  پر لازم ہے کہ اپنی بیوی کی صحت، استطاعت اور رغبت کا لحاظ رکھے اور جو راستہ اللہ  نے حلال کیا ہے، اسی پر اکتفاء کرے، اب تک جو غلط طریقے سے شہوت پوری کی ہے،  اس پر صدقِ دل سے توبہ اور استغفار کرے اور آئندہ ایسے عمل سے بالکلیہ احتراز کرے، اگر مرد اپنی اس حرکت سے باز نہ آئے، تو عورت اس  بنیاد پر اس سے علیحدگی اختیار کرسکتی ہے۔

واضح رہے کہ حالتِ حیض میں بیوی کے ساتھ جماع کرنے کو شریعت نے ناجائز اور حرام قرار دیا ہے اور اگر بیوی حالت حیض میں  ہو، تو ناف اور گھٹنوں کے درمیانی حصہ سے بغیر کسی حائل اور کپڑے کے استمتاع کرنا بھی ناجائز ہے اور میاں بیوی کا ایک دوسرے کی شرمگاہ کو ایک دوسرے کے منہ میں لینا بھی مکروہ ہے اور اس دوران  اگر منی خارج ہوجائے، تو اس کو حلق سے اتارنا بھی ناجائز  اور حرام ہے۔

صورتِ مسئولہ میں شوہر کا  اپنی بیوی سے اپنی شرمگاہ کو منہ میں لینے کا مطالبہ درست نہیں ہے اور حالتِ حیض کے دوران بیوی کی رانوں سے استمتاع کرنا بھی ناجائز ہے، البتہ ناف اور گھٹنوں کے درمیانی حصہ کے علاوہ باقی بدن سے استمتاع کرنا جائز ہے۔

شوہر کو چاہیے کہ اپنی تمام مذکورہ حرکات سے باز آکر صدقِ دل سے اللہ کے حضور توبہ اور استغفار کرے اور  آئندہ اس طرح کی حرکات سے اور اپنی بیوی پر ظلم و زیادتی سے باز رہے اور اگر ایک بیوی   سے اس کی شہوت پوری نہیں ہوتی اور دوسری شادی کا خرچہ اور اس کے بعد دونوں گھرانوں کے نان نفقہ کا انتظام کرسکتا ہے، تو دوسری شادی کر لے۔

قرآن كريم ميں ہے:

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ [البقرة: 222]

سنن ابي داود ميں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌ملعون من أتى امرأته في دبرها."

(كتاب النكاح، ج:3، ص:490، ط:دار الرسالة العالمية)

الدر المختار مع رد المحتار ميں ہے:

"ولو تضررت من كثرة جماعه لم تجز الزيادة على قدر طاقتها، والرأي في تعيين المقدار للقاضي بما يظن طاقتها نهر بحثا

وفي الرد تحته:

 (قوله نهر بحثا) حيث قال: ومقتضى النظر أنه لا يجوز له أن يزيد على قدر طاقتها، أما تعيين المقدار فلم أقف عليه لأئمتنا، نعم في كتب المالكية خلاف فقيل يقضي عليهما بأربع في الليل وأربع في النهار، وقيل بأربع فيهما. وعن أنس بن مالك عشر مرات فيهما. وفي دقائق ابن فرحون باثني عشر مرة.

وعندي أن الرأي فيه للقاضي فيقضي بما يغلب على ظنه أنها تطيقه اهـ. قال الحموي عقبه: وأقول ينبغي أن يسألها القاضي عما تطيق ويكون القول لهما بيمينها لأنه لا يعلم إلا منها وهذا طبق القواعد، وأما كونه منوطا بظن القاضي فهو إن لم يكن صحيحا فبعيد. هذا، وقد صرح ابن مجد أن في تأسيس النظائر وغيره أنه إذا لم يوجد نص في حكم من كتب أصحابنا يرجع إلى مذهب مالك وأقول: لم أر حكم ما لو تضررت من عظم آلته بغلظ أو طول وهي واقعة الفتوى اهـ. أقول: ما نقله عن ابن مجد غير مشهور، ولم أر من ذكره غيره، نعم ذكر في الدرر المنتقى في باب الرجعة عن القهستاني عن ديباجة المصفى أن بعض أصحابنا مال إلى أقواله ضرورة. هذا، وقد صرحوا عندنا بأن الزوجة إذا كانت صغيرة لا تطيق الوطء لا تسلم إلى الزوج حتى تطيقه. والصحيح أنه غير مقدر بالسن بل يفوض إلى القاضي بالنظر إليها من سمن أو هزال. وقدمنا عن التتارخانية أن البالغة إذا كانت لا تحتمل لا يؤمر بدفعها إلى الزوج أيضا، فقوله لا تحتمل يشمل ما لو كان لضعفها أو هزالها أو لكبر آلته. وفي الأشباه من أحكام غيبوبة الحشفة فيما يحرم على الزوج وطء زوجته مع بقاء النكاح قال: وفيما إذا كانت لا تحتمله لصغر أو مرض أو سمنة. اهـ. وربما يفهم من سمنه عظم آلته. وحرر الشرنبلالي في شرحه على الوهبانية أنه لو جامع زوجته فماتت أو صارت مفضاة، فإن كانت صغيرة أو مكرهة أو لا تطيق تلزمه الدية اتفاقا. فعلم من هذا كله أنه لا يحل له وطؤها بما يؤدي إلى إضرارها فيقتصر على ما تطيق منه عددا بنظر القاضي أو إخبار النساء، وإن لم يعلم بذلك فبقولها وكذا في غلظ الآلة، ويؤمر في طولها بإدخال قدر ما تطيقه منها أو بقدر آلة الرجل معتدل الخلقة، والله تعالى أعلم.

(کتاب النکاح، ج:3، ص:203، 204، ط:سعید)

الدر المختار مع رد المحتار ميں ہے:

"(وقربان ما تحت إزار) يعني ما بين سرة وركبة ولو بلا شهوة، وحل ما عداه مطلقا."

وفي الرد تحته:

"(قوله وقربان ما تحت إزار) من إضافة المصدر إلى مفعوله، والتقدير: ويمنع ‌الحيض قربان زوجها ما تحت إزارها كما في البحر (قوله يعني ما بين سرة وركبة) فيجوز ‌الاستمتاع بالسرة وما فوقها والركبة وما تحتها ولو بلا حائل، وكذا بما بينهما بحائل بغير الوطء ولو تلطخ دما."

(كتاب الطهارة، باب الحيض، ج:1، ص:292، ط:سعيد)

المحيط البرهانی میں ہے:

"إذا أدخل الرجل ذكره فم أمرأته فقد قيل: يكره؛ لأنه موضع قراءة القرآن، فلايليق به إدخال الذكر فيه، و قد قيل بخلافه."

(کتاب الاستحسان و الکراهیة، ج:5، ص:408، ط:دارالکتب العلمیۃ)

تفسير كبير ميں ہے:

"فإن قال قائل: فيلزمكم في التزام هذا الحصر تحليل النجاسات والمستقذرات ويلزم عليه أيضا تحليل الخمر وأيضا فيلزمكم تحليل المنخنقة والموقوذة والمتردية والنطيحة مع أن الله تعالى حكم بتحريمها.

قلنا: هذا لا يلزمنا من وجوه: الأول: أنه تعالى قال في هذه الآية: أو لحم خنزير فإنه رجس ومعناه أنه تعالى إنما حرم لحم الخنزير لكونه نجسا فهذا يقتضي أن النجاسة علة لتحريم الأكل فوجب أن يكون كل نجس يحرم أكله وإذا كان هذا مذكورا في الآية كان السؤال ساقطا."

(سورة الانعام، ج:13، ص:169، ط: دار احياء التراث العربي)

فتاوی رحیمیہ  میں ہے:

"بیشک شرم گاہ کاظاہری حصہ پاک ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہرپاک چیزکومنہ لگایاجائے اورمنہ میں لیاجائے اورچاٹاجائے۔ناک کی رطوبت پاک ہے توکیاناک کے اندرونی حصے کوزبان لگانا،اس کی رطوبت کومنہ میں لیناپسندیدہ چیزہوسکتی ہے؟توکیااس کوچومنے کی اجازت ہوگی؟نہیں ہرگزنہیں،اسی طرح عورت کی شرمگاہ کوچومنے اورزبان لگانے کی اجازت نہیں،سخت مکروہ اورگناہ ہے،غورکیجئے!جس منہ سے پاک کلمہ پڑھاجاتاہے،قرآن مجیدکی تلاوت کی جاتی ہے،درودشریف پڑھاجاتاہے اس کوایسے خسیس کام میں استعمال کرنے کودل کیسے گواراکرسکتاہے؟"

(فتاویٰ رحیمیہ، ج:10، ص:178، ط:دارالاشاعت کراچی)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144401101977

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں