میری شادی 13 مارچ 2020 میں ہوئی تھی، 29 دسمبر 2020 کو میرا ایک بیٹا ہوا، بچہ کی ولادت تک تمام اخراجات میں برداشت کر تارہا ہوں، جو میرا فرض بھی ہے اور ذمہ بھی، بچہ کی ولادت کے 20 دن بعد بیوی اپنےوالد سے ملنے میکےچلی گئی، لیکن والد نے اسے یہ کہہ کر روک دیا کہ واپس نہیں جائے گی، وجہ پوچھنےپر بتایا کہ بچہ بیمار ہے، جب کہ بچہ بالکل ٹھیک تھا، اس طرح دن گزرتےگئے، میں نے سوچا کہ ٹھیک ہے، کچھ دن اپنےوالدکے پاس رہے، جب بچے کی ویکسین کا وقت ہو گیا،تو میں نے رابطہ کرکے بچے اور بیوی کو واپس لےآیا اور اس وقت سے میری بیوی نے مجھے اور میرے گھر والوں سےلڑناشروع کر دیا اور پھر وہ 2 ماہ بعد یعنی اپریل میں گھر چھوڑکرچلی گئی، میں اسے 4 ماہ بعد دوبارہ واپس لےآیا، پھر 1 مہینہ رہنے کے بعد وہ پھر چلی گئی ،پھرٹھیک ڈیڑھ سال بعدخودواپس آگئی، اس دوران میں نے اسے واپس لانے کی کوشش کی، لیکن وہ نہ مانی اور اس کےبھائی لڑنےپرآجاتےتھے، اس دوران والد کا انتقال ہو گیا، جب ڈیڑھ سال بعدوہ واپس آئی تو بڑی مشکل سے ایک سال میرے پاس رہی، اس دوران وہ حاملہ بھی ہو گئی تواس نے بچہ ضائع کرلیا، اللہ جانتاہےوہ بچہ ضائع کیسےہوا، وہ مجھے حق اداکرنے بھی نہیں دیتی تھی، تو میں نےاس سے بہت دفعہ زبردستی کی اور اس کے گھر والوں کو بھی ہر بات سے آگاہ کیاتھا، اس دوران وہ بات بات پر مجھ سے کہتی تھی کہ مجھے چھوڑ دو، طلاق دے دو۔
بالآخر بات بڑھتی گئی اور وہ تیسری مرتبہ حاملہ ہوگئی، تومیں نے ا سے کہیں آنے جانےسےمنع کردیا، جس پر اس نے کہا کہ میں اسے چھوڑ دوں، میں نے بہت سوچ کر اسے طلاق دی کہ یہ عورت میرے ساتھ کبھی رکنےوالی نہیں ہے، وہ حاملہ تھی، اس کے بھائیوں نےپولیس اسٹیشن میں رپورٹ درج کرائی کہ میں نے اس کے بچے کو ضائع کردیاہے، لیکن اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس کادوسرابیٹاہوا ہے، میں نے اسے اپریل 2024 میں طلاق دی تھی، جب وہ 3 ماہ کی حاملہ تھی، نومبر کی کسی تاریخ کو اسی بچہ کی ولادت ہوئی تھی، میں اپنے پہلے بیٹے سے بھی نہیں مل پا رہا ہوں، میں نے اس کےباربار طلاق مانگنےپراسےطلاق دی تھی، تو کیا مجھےحق مہراداکرناچاہیےاور بچوں کاکیاکروں؟ میں نے سب کچھ اللہ کے سپرد کر دیا ہے، میں غریب آدمی ہوں اور عدالت کےچکر میں نہیں پڑسکتا، راہ نمائی فرمائیے۔
صورتِ مسئولہ میں اگرآپ نے اپنی بیوی کواس کےباربارطلاق کے مطالبہ پر طلاق مہر کے بدلے دی تھی اور بیوی نےاسے قبول کر لیاتھا، تو اس صورت میں آپ پر مہر کی ادائیگی لازم نہیں ہوگی، البتہ اگرمیاں بیوی کے درمیان ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تھی یعنی آپ نے طلاق بعوضِ مہرنہیں دی تھی، تو پھراس صورت میں آپ پر لازم ہے کہ مہر کی مکمل رقم بیوی کو ادا کریں۔
باقی بچوں کی پرورش کاحق سات سال کی عمر تک ان کی والدہ کو حاصل ہے، جب تک کہ وہ بچوں کے غیر محرم سے شادی نہ کرلے، غیر محرم سے شادی کرنے کی صورت میں والدہ کا حقِ پرورش ختم ہوجائےگا، بچے اگرسات سال کے ہوجائیں، تو حقِ پرورش والد(سائل)کو حاصل ہوگا، پھرآپ شرعی لحاظ سے بچوں کو اپنی پرورش میں لے سکتےہیں، نیز بچوں کا مکمل خرچہ بہر صورت والد(سائل)پر لازم ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"إن طلقها على مال فقبلت وقع الطلاق ولزمها المال وكان الطلاق بائنا كذا في الهداية".
(كتاب الطلاق، الباب الثامن في الخلع وما في حكمه، الفصل الثالث في الطلاق على المال، ج:1، ص:495، ط:دار الفكر بيروت)
فتاوی شامی میں ہے:
"و الحاضنة أما أو غیرهاأحق به أي بالغلام حتی یستغنی عن النساء وقدر بسبع، وبه یفتیٰ؛لأنه الغالب."
(كتاب الطلاق، باب الحضانة، ج:3، ص:566، ط:دارالفكر بيروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144606102417
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن