بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے مطالبہ طلاق پر صرف ’’ٹھیک ہے‘‘ کہنے سے طلاق واقع ہونے کا حکم


سوال

اگر میاں بیوی کا میسج پرجھگڑا ہو جائے،  اور بیوی بولے:’’ مجھے طلاق دے دو‘‘،  اور شوہر بولے:’’ٹھیک ہے‘‘ اور یہ اس لیے بولے؛ تاکہ بات اور آگے نہ بڑھے،  تو کیا طلاق ہو جائے گی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب بیوی نے شوہر سے یہ کہا کہ ’’مجھے طلاق دے دو‘‘، اور شوہر نے کہا کہ:’’ ٹھیک ہے‘‘، تو ان  الفاظ سےاگر شوہر کی نیت طلاق  کی نہ تھی ،بلکہ یہ نیت تھی کہ ٹھیک ہے ،طلاق دے دوں گا،توایسی صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، نکاح بدستور قائم ہے،اور اگر ان الفاظ سے شوہر کی نیت طلاق دینے کی تھی  کہ ٹھیک ہے ،طلاق دے دی ،تو اگر عورت مدخولہ ہے ،یعنی نکاح کے بعد رخصتی  یا خلوت صحیحہ ہوچکی ہےتو ان الفاظ سے ایک طلاق رجعی  واقع ہوگئی ،جس میں دورانِ عدت  رجوع کی گنجائش ہے،رجوع کرنے کی صورت میں نکاح بحال رہے گا،اور اگر عورت غیر مدخول بہا ہےتو پھر ایک طلاق بائنہ ہوکر نکا ح ٹوٹ جائے گا،اس صورت میں گھر بسانے کے لیے نکاح کی تجدید ضروری ہے،بہرحال رجوع یا تجدید نکاح ،دونوں صورتوں میں شوہر آئندہ کے لیے دو طلاق کا مالک  رہے گا۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"امرأة قالت لزوجها تريد أن أطلق نفسي فقال الزوج ‌نعم فقالت المرأة طلقت إن كان الزوج نوى تفويض الطلاق إليها تطلق واحدة وإن عنى بذلك طلقي نفسك إن استطعت لا تطلق."

(کتاب الطلاق،الباب الثالث في تفويض الطلاق،الفصل الثالث،ج:1،ص:402،ط:دار الفکر)

فتاویٰ شامی میں ہے: 

"(‌كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب."

(کتاب الطلاق، باب الکنایات، ج: 3، ص: 296، ط: سعید)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101504

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں