بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 رجب 1446ھ 13 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے ہوتے ہوئے اپنی زندگی میں پنشن بچوں کے نام کرنے کا حکم


سوال

اپنی زندگی میں  بیوی کی رضامندی  سے پنشن   بچوں کے نام کرنے کا شرعاً  واخلاقاً کیا حکم ہے؟

جواب

کسی بھی ملازم کو اپنی ملازمت کا دورانیہ پورے کرنے کے بعد حکومت کی طرف سے جو پنشن ملتی ہے وہ اس کا واجبی حق نہیں ہوتا، بلکہ محض حکومت کی طرف سے تبرع اور احسان ہوتا ہے، جب تک پنشن پنشنر کے قبضہ میں نہ آئے اس وقت تک وہ اس کا مالک نہیں بنتا،  جب کہ شرعاً کسی چیز کا دوسرے کو مالک بنانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود اس کا مالک  ہو، جب تک  آدمی خود کسی چیز کا مالک نہ ہوتو شرعاً کسی دوسرے کو اس کا مالک نہیں بنا سکتا۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں  چوں کہ مذکورہ شخص خود پنشن وصول کرنے سے پہلے اس کا مالک نہیں ہے اس لیے اپنی بچوں کو بھی شرعاً اُس کا مالک نہیں بنا سکتا،  مذکورہ شخص کے انتقال کے بعد حکومت پنشن جس کو دے  وہی اس کا مالک ہوگا، البتہ اگر  بیوی اپنی رضامندی سے لکھ کردے کہ پنشن بچوں کے نام جاری کی جائے تو اس کی گنجائش ہے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے :

"وأما ما يرجع إلى الواهب فهو أن يكون الواهب من أهل الهبة، وكونه من أهلها أن يكون حرا عاقلا بالغا مالكا للموهوب حتى لو كان عبدا أو مكاتبا أو مدبرا أو أم ولد أو من في رقبته شيء من الرق أو كان صغيرا أو مجنونا أو لا يكون مالكا للموهوب لا يصح، هكذا في النهاية. وأما ما يرجع إلى الموهوب فأنواع منها أن يكون موجودا وقت الهبة فلا يجوز هبة ما ليس بموجود وقت العقد بأن وهب ما تثمر نخيله العام وما تلد أغنامه السنة ونحو ذلك، وكذلك لو وهب ما في بطن هذه الجارية أو ما في بطن هذه الشاة أو ما في ضرعها، وإن سلطه على القبض عند الولادة والحلب."

(‌‌كتاب الهبة، الباب الأول، ج : 4، ص : 417، ط : دار الكتب العلمية)

بدائع الصنائع میں ہے :

"أما الذي يرجع إلى الموكل فهو أن يكون ممن يملك فعل ما وكل به بنفسه؛ لأن التوكيل تفويض ما يملكه من التصرف إلى غيره، فما لا يملكه بنفسه، كيف يحتمل التفويض إلى غيره؟ فلا يصح التوكيل من المجنون، والصبي الذي لا يعقل أصلا؛ لأن العقل من شرائط الأهلية."

(كتاب الوكالة، فصل في شرائط الوكالة، ج : 7، ص : 427، ط : دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144607100686

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں