بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا طلاق کو معلق کرنے سے طلاق کے وقوع کا حکم


سوال

اگر بیوی  کنایہ الفاظ میں بولے کہ اگر فلاں کام کیا تو  ہمارا رشتہ ختم، اور شوہر جان چھڑانے کی نیت سے okیا ٹھیک ہے بول دے ،جب کہ اس کو بیوی کی نیت معلوم نہ ہو ،توکیا وہ کام کرنےسےطلاق واقع ہوجائے گی؟

دوسری صورت یہ ہے کہ شوہر کی نیت یہ ہوکہ وہ جان گیا ہے بیوی کیا چاہتی ہے اس پروہ ٹھیک ہےبولتاہے،تو تب کیا حکم ہو گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر بیوی کے یہ بات کرنے پر کہ" اگرفلاں کام کیا تو ہمارا رشتہ ختم "اس کےجواب میں شوہر نے محض بات کو ٹالنے کےلیے"ٹھیک ہےیا"ok"بول دیا ،پھرجس کام پر طلاق کو معلق کیا تھا اس شرط کےپائےجانےکےبعد ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہ ہوگی،لیکن اگر شوہر نےبیوی کےاس طرح طلاق کو معلق کرنےکےبعد "طلاق کی نیت سے"ٹھیک ہے"یا"ok"بول دیا،تواس کام کرنےپر ان الفاظ سےبیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوجائےگی،اورنکاح  ختم ہوجائےگا،اس کےبعد عورت اپنی عدت (تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو تواور اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک)گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے،طلاق واقع ہونے کی صورت میں میاں بیوی اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہتے ہوں تو  نئے مہر کے ساتھ شرعی گواہان کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں اور آئندہ کے لیے شوہر کے پاس دو طلاقوں کا اختیار ہو گا۔بہرحال شوہر بیوی  کی نیت کو جانتا ہویا نہ جانتا ہو،دونوں صورتوں میں طلاق کا واقع ہونا یا نہ ہونا شوہر کی نیت پر موقوف ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو قال لها: لا نكاح بيني وبينك، أو قال: لم يبق بيني وبينك نكاح، يقع الطلاق إذا نوى."

(کتاب الطلاق،الباب الثانی فی ایقاع الطلاق،375/1،ط:رشیدیہ)

وفیہ ایضاً:

"وإذا أضافه إلی الشرط وقع عقیب الشرط اتفاقًا مثل أن یقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."

(کتاب الطلاق،الباب الرابع فی الطلاق بالشرط،الفصل الثالث،420/1،ط:رشیدیہ)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما حكم الطلاق البائن فالطلاق البائن نوعان: أحدهما الطلقات، والثاني الطلقة الواحدة البائنة، والثنتان البائنتان، ويختلف حكم كل واحد من النوعين وجملة الكلام فيه أن الزوجين أما إن كانا حرين.وأما إن كانا مملوكين.وأما إن كان أحدهما حرا، والآخر مملوكا فإن كانا حرين فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد ولا يصح ظهاره، وإيلاؤه ولا يجري اللعان بينهما ولا يجري التوارث ولا يحرم حرمة غليظة حتى يجوز له نكاحها من غير أن تتزوج بزوج آخر؛ لأن ما دون الثلاثة - وإن كان بائنا - فإنه يوجب زوال الملك لا زوال حل المحلية."

(کتاب الطلاق ،فصل فی حکم الطلاق البائن،187/3،ط:دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407102322

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں