بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا طلاق کا مطالبہ اور عدت کے خرچہ کا حکم


سوال

 بہت عرصہ سے بیوی اپنے میکے میں رہائش پذیر تھی اور اب خلع کا مطالبہ کر رہی ہے ، بغیر کسی عذر کے (بیوی کی اپنی من مانی کے حساب سے چلنے کے لیے) کہتے ہیں کہ جو کام بیوی کہے وہ کریں (پارٹ ٹائم کھلونے کی ریڑی لگاتا ہے وہ ختم کردے) ؟

1) اگر خلع کے بدلے (طلاق بائن) دے دی جائے تو عدت کہاں گزارے گی (طلاق کے وقت عورت میکے میں رہائش پذیر ہے) شوہر اگر کرایہ کے گھر پر رہائش پذیر ہے یا اپنے گھر ؟

2) بالفرض بیوی شوہر کے گھر پر رہنے کو راضی نہ ہو تو نان نفقہ کا ذمے کس کا ہے ؟

3) بغیر شرعی عذر کے میکے میں رہ کر خلع کا مطالبہ کرنا اور نان نفقہ کا ذمہ شوہر پر ڈالنا درست ہے ؟ براہِ کرم تفصیلی جواب واضح کردیں ۔

جواب

1۔ صورت  مسئولہ میں اگر آپ بیوی کو نان نفقہ دے رہے ہیں اور اس کے دیگر حقوق بھی پورے کررہے ہیں تو اس کا  آپ سے  طلاق کا مطالبہ کرنا غیرشرعی مطالبہ ہے، جو کہ  ناجائز اور گناہ  ہے ، حدیث مبارک  میں ہےکہ:"جو عورت بغیر کسی شرعی وجہ کے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے  اس پر جنت حرام ہے"، ایک اور حدیث میں ہے کہ:"جب عورت(بغیر کسی وجہ کے) اپنے شوہر  کے بستر سے علیحدہ ہو کر رات گذارتی ہے ،تو جب تک وہ عورت (شوہر کی طرف)واپس نہ آجائے   فرشتے اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں"،فرماں بردار بیوی کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا گیا ہےکہ:"  جس عورت نے  (اپنی پاکی کے  دنوں میں پابندی کے ساتھ) پانچوں وقت کی نماز پڑھی،  رمضان کے  (ادا اور قضا) روزے رکھے،  اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی  اور اپنے خاوند  کی فرماں برداری کی  تو (اس عورت کے لیے یہ بشارت ہےکہ) وہ جس دروازہ سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔"

 لہذا  آپ کو چاہیے کہ پہلے خود یا خاندان کے بزرگ اور معزز افراد کے ذریعے اسے سمجھانے کی کوشش کریں۔

2۔اگر وہ کسی طور پر راضی نہ ہو تو پھر اس کے مطالبےپر اسے  خلع دے دیں ،اور خلع کے ذریعہ ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی ،عورت پر عدت شوہر کے گھر (چاہے وہ ذاتی ہو یا کرایہ کا ہو ) گزارنا لازمی ہوگا۔

3۔ چوں کہ آپ کی بیوی  آپ کی اجازت کے بغیر میکے میں رہ رہی ہے اس لئے   فی الوقت اور طلاق کے بعد   عدت کا نان ونفقہ شرعاً آپ پر لازم نہیں ہوگا ۔

 سنن أبي داود  میں ہے:

"عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أيما امرأة سألت زوجها طلاقا في غير ما بأس، فحرام عليها رائحة الجنة»."

(الطلاق، باب في الخلع، ج:3،ص:543، دارالرسالة العالمية)

صحیح بخاری میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: إذا باتت المرأة ‌مهاجرة ‌فراش زوجها، لعنتها الملائكة حتى ترجع."

(کتاب النکاح، باب اذا باتت المراۃ مھاجرۃ فراش زوجھا،ج:2،ص:782، ط:قدیمی)

مشکاۃ  شریف میں ہے:

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «المرأة إذا ‌صلت ‌خمسها وصامت شهرها وأحصنت فرجها وأطاعت بعلها فلتدخل من أي أبواب الجنة شاءت» . رواه أبو نعيم في الحلية."

(كتاب النكاح،‌‌باب عشرة النساء،ج:2،ص: 971،  ط: المكتب الإسلامي بيروت)

البنایہ شرح الہدایہ میں ہے :

"وأما كون الخلع بائنًا فلما روى الدارقطني في كتاب "غريب الحديث" الذي صنفه عن عبد الرزاق عن معمر عن المغيرة عن إبراهيم النخعي أنه قال: الخلع تطليقة بائنة، وإبراهيم قد أدرك الصحابة وزاحمهم في الفتوى، فيجوز تقليده، أو يحمل على أنه شيء رواه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؛ لأنه من قرن العدول فيحمل أمره على الصلاح صيانة عن الجزاف والكذب، انتهى."

(باب الخلع،ج:5،ص:509،دارالکتب العلمیۃ)

در مختار  میں ہے:

"(و) تجب (لمطلقة الرجعي والبائن، والفرقة بلا معصية كخيار عتق، وبلوغ وتفريق بعدم كفاءة النفقة والسكنى والكسوة) إن طالت المدة۔۔۔وفي الذخيرة: وتسقط ‌بالنشوز وتعود بالعود."

( فتاوی شامی ،کتاب النکاح،باب النفقۃ،مطلب فی نفقۃ المطلقۃ،ج:3،ص:609،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100330

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں