بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا شوہر سے گزشتہ سالوں کے جیب خرچ کا مطالبہ


سوال

اِن مسائل کے جوابات مطلوب ہیں، از راہِ کرم راہنمائی فرمائیے:

1)  ایک ہزار ماہ وار جیب خرچ شوہر نے نکاح نامے میں طے کیا تھا لیکن بارہ سال تک نہیں دیا۔اب بارہ سال بعد میاں بیوی میں لڑائی کی شدت اتنی اختیار کر چکی ہے کہ طلاق کی نوبت قریب قریب معلوم ہوتی ہے۔کیا عورت وہ بارہ سال کا طے شدہ جیب خرچ طلب کر سکتی ہے؟

2) خاوند نے بیوی کو شادی پر کپڑے دیے تھے کیا مذکورۂ بالا صورت میں خاوند وہ کپڑے دوبارہ واپس لے سکتا ہے؟

3)  کیا بیوی خلع لے تو غیرمعجل حق مہر طلب کر سکتی ہے؟جب کہ نکاح نامے پر عندالطلب لکھا ہے۔

4) کیا بیوی طلاق یا خلع سے پہلے حق مہر(غیر معجل) طلب کر سکتی ہے؟

جواب

1:  واضح رہے کہ بیوی کے  لیے رہائش، کھانے ، پینے اور کپڑوں کا انتظام کرنا تو شوہر کی ذمہ داری ہے، لیکن اس کے علاوہ بیوی کو ماہ بہ ماہ ، یا یومیہ نقد جیب خرچ(پاکٹ منی) دینا شوہر کی شرعی ذمہ داریوں میں داخل نہیں، یہ شوہر کی طرف سے محض تبرع واحسان ہوتاہے، اور تبرع واحسان میں زبردستی نہیں ہوتی۔البتہ  نکاح نامے میں  چوں کہعورت کے  لیے شوہر کی طرف سے   ایک ہزار ماہانہ جیب خرچ طے  ہوا تھا،  اس لیے اگر شوہر نے ادا نہیں کیا، تو بیوی کے مطالبہ پرشوہر پر گزشتہ بارہ سال کا ماہانہ جیب خرچ بیوی کو ادا کرنا ضروری ہے، عورت کے  لیے اس کا  مطالبہ کرنا جائز ہے۔

مرقاة المفاتیح میں ہے:

   "(ولهن عليكم رزقهن) من المأكول والمشروب وفي معناه سكناهن (وكسوتهن بالمعروف) باعتبار حالكم فقرًا وغنًى أو بالوجه المعروف من التوسط الممدوح"۔

(مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح: کتاب المناسک، باب قصة حجة الوداع، (5/1772)، تحت الرقم (2555)،ط۔دار الفكر، بيروت – الطبعة: الأولى، 1422هـ = 2002م)

تفسیر القرطبی میں ہے:

"وأعلمنا في هذه الآية أن النفقة التي تجب للمرأة على زوجها هذه الأربعة: الطعام والشراب والكسوة والمسكن، فإذا أعطاها هذه الأربعة فقد خرج إليها من نفقتها، فإن تفضل بعد ذلك فهو مأجور، فأما هذه الأربعة فلا بد لها منها، لأن بها إقامة المهجة"۔

تفسیرالقرطبی: سورہ طہ (11/253)، رقم الآیة(117)، ط۔ الناشر: دار الكتب المصرية – القاهرة ، الطبعة: الثانية، 1384هـ - 1964 م، بتحقیق أحمد البردوني وإبراهيم أطفيش)

الفتاوی الہندیة میں ہے:

"و النفقة الواجبة المأكول و الملبوس و السكنى ... و أما ما يقصد به التلذذ و الاستمتاع مثل الخضاب و الكحل فلايلزمه، بل هو على اختياره إن شاء هيأه لها، و إن شاء تركه، فإذا هيأه لها فعليها استعماله."

                («کتاب الطلاق»، «الباب السابع عشر في النفقات» «الفصل الأول في نفقة الزوجة» (1/544)، ط۔ رشیدیہ)۔

معارف القرآن میں ہے:

"عورت کا جو نفقہ مرد کے ذمہ ہے وہ صرف چار چیزیں ہیں۔ کھانا پینا اور لباس اور مسکن۔ اس سے زائد جو کچھ شوہر اپنی بیوی کو دیتا یا اس پر خرچ کرتا ہے وہ تبرع و احسان ہے واجب و لازم نہیں"۔   

(معارف القرآن، سورہ طہ: (6/157) ط۔مکتبہ معارف القرآن، سنة الطبعة:1429ھ =2008م)

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

چوں کہ دینی ودنیوی مصارف (اخراجات) کی حاجت اکثر واقع ہوتی رہتی ہے اور عورتوں کے پاس اکثرجداگانہ مال نہیں ہوتا،  اس لیے مردوں کو مناسب ہے کہ نفقہ واجبہ (اور مہر) کے علاوہ حسب حیثیت کچھ خرچ ایسے مواقع کے لیے علیحدہ بھی دید یا کریں پھر اس کا حساب نہ لیا کریں۔ تاکہ وہ اپنی مرضی کے موافق آزادی کے سا تھ بے تکلف ایسے مصارف میں صرف کرسکیں۔

                                            (تحفہ زوجین: باب9: بیوی کے حقوق کا بیان (ص:84،85)،ط۔المیزان کراچی)

فیض الباری میں ہے:

"قوله: (المسلمون عند شروطهم)... إلخ، يعني: يلزمهم كل شرط تتحمله قواعد الشرع، فعليهم الإيفاء بها".

(فيض الباري: كتاب الاجارة، باب أجرة السمسرة (3/ 415)، ط. دار الكتب العلمية، بيروت)

2: اگر شوہر کے دیے ہوئےکپڑے فی الحال موجود ہیں تو دیکھا جائےگا كه اگر عام استعمال کے کپڑے تھے تو یہ حسب عرف نفقہ(خرچہ) میں شامل ہیں شوہر اس کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔ اگر وه كپڑے کوئی قیمتی عروسی جوڑے تھے اور دیتے وقت شوہر نے صرف استعمال کے لئے دینے کا کہا تھا تو پھر شوہر کو واپس لینے کا اختیار ہے، اور اگر ایسی کوئی صراحت نہیں کی تھی توپھر اس میں مرد کے خاندان کے رسم ورواج کا اعتبار ہوگا۔ اگر علیحدگی کے وقت ایسے کپڑے واپس لئے جاتے ہوں تو پھر شوہر واپس لے سکتا ہے، ورنہ نہیں۔

درمختار مع رد المحتار میں ہے:

(ولو بعث إلى امرأته شيئا ولم يذكر جهة عند الدفع غير) جهة (المهر) كقوله لشمع أو حناء ثم قال إنه من المهر لم يقبل قنية لوقوعه هدية فلا ينقلب مهرا (فقالت هو) أي المبعوث (هدية وقال هو من المهر) أو من الكسوة أو عارية (فالقول له) بيمينه والبينة لها، فإن حلف والمبعوث قائم فلها أن ترده۔

وفی الشامیة

(قوله: و لو بعث إلى امرأته شيئًا) أي من النقدين أو العروض أو مما يؤكل قبل الزفاف أو بعد ما بنى بها ۔نهر۔

(الدرالمختار مع حاشیتہ: «کتاب النکاح»، «باب المہر» (3/151)،ط۔ سعید) 

محیط برہانی میں ہے:

وفي «فتاوى أبي الليث» رحمه الله: اشترى لامرأته أمتعة بأمرها بعدما بيّن لها، او دفع إليها دراهم حتى اشترت هي أيضاً، ثم اختلفا فقال الزوج: هو من المهر، وقالت المرأة: هدية. فالقول قول الزوج أنه من المهر إلا أن يكون شيئاً مأكولاً. قال الفقيه أبو الليث رحمه الله: المختار أن ننظر إن كان ذلك من متاع سوى ما يجب على الزوج فالقول قوله أنه من المهر، وإن كان ذلك يجب على الزوج من الخمار والدرع ومتاع الليل ليس له أن يحتسبه من المهر؛ لأن الظاهر يكذبه.

(«کتاب النکاح» «الفصل السادس عشر في المهور»(3/108)،ط۔دار الكتب العلمية، بيروت –الطبعة: الأولى، 1424 هـ - 2004 م)

شرح الحموی میں ہے:

" ... فالمنظور إليه العرف؛ فالقول المفتى به نظر إلى عرف بلدهما."

(القاعدة السادسة، المبحث الثالث العادة المطردة هل تنزل منزلة الشرط(1/310)،ط۔ دار الكتب العلمية ، الطبعة: الأولى، 1405هـ - 1985م )

3:عورتشوہر سے مہر کے عوض میں خلع لے لے تو اگر شوہر نے مہر ادا نہیں کیا ہو، تو مہر خلع کے عوض میں شوہر کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

الخلع على المهر قبل الدخول وبعده، ثم إن كان المهر غير مقبوض سقط عن الزوج، وإن كان مقبوضًا ردّته على الزوج.

(«کتاب النکاح»، «فصل بيان ما يسقط به كل المهر» (2/295)،ط۔ سعيد)

تنقيح الحامديه میں ہے:

سئل) فيما إذا قال الرجل لزوجته خالعتك ولم يذكر مالًا فقبلت الزوجة الخلع فهل تطلق وبرئ من المهر المؤجل؟

(الجواب) : نعم قال الزوج خالعتك ولم يذكر مالا فقبلت المرأة طلقت لوجود الإيجاب والقبول وبرئ من المهر المؤجل لو كان عليه وإلا أي وإن لم يكن عليه من المؤجل شيء رددت على الزوج ما ساق إليها من المهر المعجل فإنها إذا قبلت الخلع وقد ثبت أنه معاوضة في حقها فقد التزمت العوض فوجب اعتباره بقدر الإمكان. درر من الخلع ومثله في التنوير.

(«كتاب الطلاق»، «باب الخلع والطلاق على مال» (1/54)، ط. دار المعرفة )

ولو قال: نصفه معجل ونصفه مؤجل كما جرت العادة في ديارنا ولم يذكر الوقت للمؤجل اختلف المشايخ فيه قال بعضهم: لا يجوز الأجل ويجب حالا كما إذا قال: تزوجتك على ألف مؤجلة. وقال بعضهم: يجوز ويقع ذلك على وقت وقوع الفرقة بالطلاق أو الموت۔

(«کتاب النکاح»، «فصل بيان ما يسقط به كل المهر» (2/288)،ط۔ سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

الخلع على المهر قبل الدخول وبعده، ثم إن كان المهر غير مقبوض سقط عن الزوج، وإن كان مقبوضًا ردّته على الزوج۔ 

(«کتاب النکاح»، «فصل بيان ما يسقط به كل المهر» (2/295)،ط۔ سعید)

الفتاوی الہندیہ میں ہے:

وإذا خالعها على مال مسمى معروف سوى الصداق فإن كانت المرأة مدخولا بها والمهر مقبوضا فإنها تسلم إلى الزوج بدل الخلع ولا يتبع أحدهما صاحبه بعد الطلاق بشيء وإن كان المهر غير مقبوض فالمرأة تسلم إلى الزوج بدل الخلع ولا ترجع على الزوج بشيء من المهر عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -  

(«کتاب الطلاق»، «الباب الثامن في الخلع» «الفصل الأول في شرائط الخلع وحكمه وما يتعلق به» (1/489)،ط۔ رشیدیہ).

4۔اگرمہر غیر معجل تھا تو وفات یا طلاق سے پہلے بیوی اس کا مطالبہ نہیں کرسکتی۔

               فقط ، والله أعلم


فتوی نمبر : 144201201021

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں