بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو یہ کہنا کہ تمہارا عضو خاص مجھ پر حرام ہے


سوال

کل میں نے بیوی سے مباشرت کا کہا تو اس نے انکار کردیا کہ ابھی لیٹ ہے اور مجھے سویرے اٹھنا ہے، تو میں نے ناراضگی ظاہر کی، جس پر وہ مجھ سے باتیں کرنے لگی تو مجھ سے غصہ میں بلا کسی ارادے اور نیت کے یہ الفاظ نکلے کہ " تمہارا عضو خاص مجھ پر حرام ہے " یا یہ کہا کہ "تمہارا عضو خاص مجھ پر ویسے بھی حرام ہے مطلب تم مباشرت نہیں کرتی " ۔ اب اس کا کیا حکم ہے اور اگر آج مباشرت کر لوں تو کیا کفارہ ہے۔ آپ  کی ویب سائٹ پر یہ بھی دیکھا  کہ تم مجھ پر حرام ہو کے الفاظ سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ مجھے نہ تو اس بارے میں علم تھا کہ یہ الفاظ اتنے خطرناک  ہیں اور نا میری یہ نیت  تھی اور دوسری بات یہ کہ میں نے صرف عضو خاص کا بولا تھا۔ برائے مہربانی جواب دیں ۔

جواب

 واضح رہے کہ طلاق کے واقع ہونے کے لیے ضروری ہے کہ طلاق کی نسبت بیوی کی طرف یا اس کے اعضاء میں سے کسی ایسے عضو  کی طرف  کی جائے جس  سے کل مراد لیا جاتا ہو؛لہذا  صورت ِ مسئولہ میں سائل کا غصہ کی حالت میں بیوی کو یہ کہنا کہ "تمہارا عضو خاص مجھ پر حرام ہے "یا یہ کہناکہ "تمہارا عضو خاص مجھ پر ویسے بھی حرام ہے "اس سے سائل کی بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوچکی ہے ،چوں کہ لفظ ’’حرام‘‘ طلاق کے بارے میں عرف کے اعتبار سے صریح بائن  بن چکا ہے،اس میں طلاق کی نیت ہو یا  نہ ہو، دونوں صورتوں میں اس سے ایک طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے ؛  لہذا  اس صورت میں  طلاق پڑتے ہی نکاح ٹوٹ جائے گا، اس کے بعد اگر میاں بیوی دونوں ساتھ رہنا چاہتے ہوں تو نئے سرے سے نئے مہر کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرنے کے بعد ساتھ رہ سکتے ہیں، اور شوہر کے پاس آئندہ کے لیے صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہے گا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"ومن الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام فيقع بلا نية للعرف.

 (قوله: فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحاً لا كنايةً، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن؛ لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحاً؛ لأنه صار فاشياً في العرف في استعماله في الطلاق لايعرفون من صيغ الطلاق غيره ولايحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لايستعمل عرفاً إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحاً كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية".

(کتاب الطلاق،باب صریح الطلاق،ج:3،ص؛252،سعید)

فتاوی شامی  ميں هے :

"(وإذا أضاف الطلاق إليها) كأنت طالق (أو) إلى (ما يعبر به عنها كالرقبة والعنق والروح والبدن والجسد) الأطراف داخلة في الجسد دون البدن. (والفرج والوجه والرأس) وكذا الاست، بخلاف البضع والدبر والدم على المختار خلاصة (أو) أضافه (إلى جزء شائع منها) كنصفها وثلثها إلى عشرها (وقع) لعدم تجزئه.

(قوله والفرج) عبر عن الكل في حديث «لعن الله الفروج على السروج» قال في الفتح إنه حديث غريب جدا".

(کتاب الطلاق،باب صریح الطلاق،ج:3،ص:256،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100297

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں