میری بیوی 2011 میں بیا ہوکر میری گھر آئی ان سے میر ی چار بیٹیاں ہیں13سال، 12 سال، 6سال اور 2 سال کی، میری بیوی گھر میں چھوٹی باتوں پر گالیاں بکتی ہے اور میرے پورے خاندان کو گالیاں دیتی ہے میرے اجازت کے بغیر چھوٹی بیٹیوں کو ساتھ لے کر اپنے بہنوی کے گھر چلی جاتی ہے، اپنے باپ کے گھر نہیں جاتی، جس پر مجھے شک ہےاس کے بہکانے پر اور غلط تعلق بھی ہوسکتاہے بہنوئی کے ساتھ، اس کی گالیوں کی آواز پورے محلے میں جاتی ہے۔ گھر کی چیزوں کو توڑ نا اور میری بیٹیوں کو میرے خلاف بھڑکانا اس کا معمول بن گیاہے، گھر میں صرف میر ے والد، بیوی اور بیٹیاں ہیں اور یہ پہلے بھی مجھ کو بتائے بغیر بہنوئی کے ہاں جا یا کرتی تھی اور رات کو رک کر صبح واپس آجاتی ہے اس پر مجھے شک ہے کہ اس کے غلط مراسم ہیں۔ اس لیے مجھے قرآن وسنت کے مطابق فتوی دے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ یہ مجھ سے کئی با ر طلاق کا مطالبہ بھی کرچکی ہےاور ایک بار خلع کا نوٹس بھی دیاہے۔
واضح رہے کہ ازدواجی زندگی پرسکون اور خوش گوار ہونے کے لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں، نبی کریم ﷺ نے شوہرکو اپنی اہلیہ کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین فرمائی ہے، چنانچہ ارشاد نبوی ہے: تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی گھر والی کے ساتھ اچھا ہو اور میں اپنی گھر والی کے ساتھ تم میں سے سب سے بہتر ہوں، دوسری جانب بیوی کو بھی اپنے شوہر کی اطاعت اور فرماں برداری کا حکم دیا ، ارشاد نبوی ہے: (بالفرض) اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، اسی اطاعت شعاری کا نمونہ کہ بیوی شوہرکے اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہیں جاسکتی، اس سلسلے میں حدیثِ مبارک میں واضح تعلیمات موجود ہیں، چنانچہ ارشادِ مباک ہے:
"وروي عن ابن عباس رضي الله عنهما أن امرأة من خثعم أتت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله! أخبرني ما حق الزوج على الزوجة؟؛ فإني امرأة أيم فإن استطعت وإلا جلست أيماً! قال: فإن حق الزوج على زوجته إن سألها نفسها وهي على ظهر قتب أن لاتمنعه نفسها، و من حق الزوج على الزوجة أن لاتصوم تطوعاً إلا بإذنه، فإن فعلت جاعت و عطشت و لايقبل منها، و لاتخرج من بيتها إلا بإذنه، فإن فعلت لعنتها ملائكة السماء و ملائكة الرحمة و ملائكة العذاب حتى ترجع، قالت: لا جرم و لاأتزوج أبداً". رواه الطبراني".
(الترغيب والترهيب للمنذري (3/ 37)
لہٰذا بیوی کا شوہر کو گالیاں دینا گناہ کی بات ہے، کسی بھی مسلمان کو گالی دینا گناہِ کبیرہ ہے،اسی طرح شوہر کی نافرمانی کرنا اور اس کے اجازت کے بغیر گھر سےباہر نکلنا اور بغیر کسی عذر کے طلاق کا مطالبہ کرنا، یا خلع لینا اور اچھا سلوک نہ کرنا شرعاً درست نہیں اس سے بیوی گناہ گار ہوجاتی ہے،اور شوہر کا بیوی پر بہت بڑا حق ہے،بہر حال ایسے الفاظ کے استعمال سے بیوی سخت گناہ گار ہے، اسے سچے دل سے اللہ تعالیٰ کے حضور بھی توبہ کرنی چاہیے، اور اپنے شوہر سے بھی معافی مانگنی چاہیے، اگر وہ تائب نہیں ہوتی اور شوہر بھی اس کوتاہی پر معاف نہیں کرتا تو حدیثِ پاک میں ایسی عورت کے لیے وعید ہے۔ اگر عورت معافی مانگ لیتی ہے تو بہتر، اگر وہ معافی نہیں مانگتی اور بدزبانی اور گالم گلوچ کی اسے عادت ہے، اور اسی طرح وہ شوہر کی اجازت کے بغیر باہر نکلنے سے باز نہیں آرہی اور شوہر کو اذیت اور تکلیف دیتی ہے، نصیحت اور سمجھانے سے بھی باز نہیں آتی تو شوہر اپنے احوال دیکھتے ہوئے اسے نکاح سے خارج کرنے کا حق رکھتاہے۔توایسی صورت حال میں دونوں کے مابین مصالحت کے لیے طریقہ یہ ہے کہ شوہر اور بیوی کے رشتےداروں میں سے ایک ایک سمجھدار آدمی کو بیچ میں ڈال کر صلح کی کوشش کی جائے، اگر اس سے اصلاح ہو جائےتو طلاق کا اقدام نہیں کر نا چا ہیے ، لیکن اگر اصلاح کی کوئی امید باقی نہ رہے اور شوہر نے اصلاح کے ممکنہ طریقے استعمال کیے ہوں،لیکن بیوی پھر بھی نافرمان ہو تو پھر ایسی ناگزیر صورت حال میں شریعت نے شوہر کو طلاق دینے کا اختیار دیا ہے ۔
طلاق کا طریقہ یہ ہے کہ بیوی کو ایسے طہر ( پاکی کی حالت) میں صریح لفظ کے ساتھ صرف ایک طلاق دی جائے جس میں شوہر نے جماع نہ کیا ہو ، پھر طلاق دینے کے بعد اس کو تین حیض گزرنے تک چھوڑ دے جس سے عدت ختم ہو کر وہ شوہر کے نکاح سے نکل جائے گی۔ اور ایک طلاق بائن ہو جائے گی، لہٰذا آئندہ اگر دونوں دوبارہ رشتہ ازدواج قائم کرنا چاہیں تو نیا نکاح کر لیں گے۔طلاق کے اقدام سے پہلے بچیوں کے حال و مستقبل کو سامنے رکھیں اور اگر اس کی ایذاء پر صبر کے ساتھ رہیں گےتو اجر ملےگا،بچیوں کا مستقبل محفوظ رہے گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"و لیس لها أن تخرج بلا إذنه أصلًا".
(ردالمحتار علی الدرالمختار: (3 / 146) ط:ایچ ایم سعید)
بدائع الصنائع میں ہے:
"أحسن الطلاق في ذوات القرء أن يطلقها طلقة واحدة رجعية في طهر لا جماع فيه ولا طلاق ولا في حيضة طلاق ولا جماع ويتركها حتى تنقضي عدتها ثلاث حيضات إن كانت حرة."
(بدائع الصنائع،كتاب الطلاق،ج4، ص186)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101738
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن