بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا نفقہ معاف کر کے دوسری شادی کرنے کا حکم


سوال

ایک شخص جس کی عمر تقریباً 41 سال ہےاور وہ شادی شدہ ہے اور چار بچوں کا باپ ہے، کاروبار ٹھیک ہے، عزت سے گزارہ ہوتا ہے، اللہ کا شکر ہے اپنا گھر ہے والدین کے ساتھ رہتا ہے، دوسری شادی کرنا چاہتا ہے ایک بیوہ عورت کو سہارا دینا چاہتا ہے، جس عورت سے شادی کرنا چاہتا ہے اسکی عمر تقریبا 45 سال ہے اور تین بچوں کی ماں ہے گھر اپنا ہے آمدنی اچھی ہے، گزر سفر اچھا ہوتا ہے شکر ہے اللہ کا بچے ابھی چھوٹے ہیں پڑھتے ہیں انکو سہارے کی ضرورت ہے۔

شادی کے بعد مرد اپنے گھر پر ہی رہے گا اپنے ماں باپ اور پہلی بیوی بچوں کے ساتھ مرد کی کمائی پر دوسری بیوی کا کوئی حق یا نان نفقہ نہیں ہوگا،  دوسری بیوی کا یا ان کے بچوں کا کوئی خرچہ نہ ہوگا، مرد کی جائیداد یا کاروبار پر دوسری بیوی کو کوئی حق نہ ہوگا ۔ عورت کی کمائی یا مکان جائیداد پر مرد کا کوئی حق نہ ہو گا عورت اپنے سابقہ گھر پر اپنے بچوں کے ساتھ ہی رہے گی اپنا شرعی حق بھی معاف کریگی۔

مرد نے اپنے والدین سے جب دوسری شادی کے لیے اجازت مانگی اور بات کی تو والدین نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ ہمارا معاشرہ دوسری شادی کی اجازت نہیں دیتا اور ہم لوگوں کی باتوں کا جواب دینے کے قابل نہیں ہیں اور دوسرا یہ کہ اس کی عمر بھی زیادہ ہے۔

اب آیا کہ مرد اپنے والدین کی اجازت کے بغیر اسی عورت سے شرعی حق سمجھتے ہوئے نکاح کر سکتا ہے یہ نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت مطہرہ نےمرد کو ایک وقت میں چار عورتوں سے شادی کرنے کی اجازت دی ہے، بشرطیکہ وہ تمام کی تمام بیویوں کے جسمانی و مالی  حقوق کی ادائیگی پر قادر ہو اور تمام بیویوں کے درمیان عدل و انصاف قائم رکھ سکتا ہو، اگر وہ ایک سے زائد بیویوں کے حقوق کی ادائیگی نہیں کرسکتا، تو اس کے لیے دوسری شادی کرنا جائز نہیں ہے اور حقوق کو معاف کروا کر شادی کرنا بھی مناسب نہیں ہے، اگر بیوی اپنا حق معاف کربھی دے، تو اس کا حق معاف تو ہوجائے گا، لیکن جب بھی بیوی اپنے حقوق کا مطالبہ کرے گی، تو اس کے حقوق کو ادا کرنا لازم اور ضروری ہوگا۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل دوسری  بیوی کے تمام حقوق مالی و جسمانی کی ادائیگی پر قدرت رکھتا ہے، تو دوسری شادی کرے، ورنہ نہ کرے اور اگر نکاح کا رشتہ قائم ہوجائے گا، تو جائیداد میں حصہ نہ ہونے کے معاہدہ کے باوجود بھی  شوہر کی وفات کے بعد بیوی اس کی وارث ہوگی اور بیوی کی وفات کے بعد شوہر اس کا وارث ہوگا، وراثت کا حصہ معاف کرنے سے معاف  نہیں ہوتا۔

تاہم سائل کے والدین کا اس کو دوسری شادی سے کہ کہہ کر روکنا کہ معاشرہ دوسری شادی کی اجازت نہیں دیتا، سراسر غلط ہے، بلکہ شرعاً مرد کو ایک سے زائد شادیوں کا اختیار ہے، اگرآج کل معاشرہ میں دین کی کمی کی وجہ سے اس کو برا سمجھاجاتا ہو۔

مشکاۃ شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة عن النبي صلي الله عليه وسلم قال: إذا كانت عند رجل إمرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة و شقه ساقط". رواه الترمذي و أبو داؤد و النسائي و ابن ماجه و الدارمي".

(مشكاة، باب القسم: الفصل الثاني، ٢/ ٢٨٠، ط: قديمي)

ترجمہ:" حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں:  جس شخص کے نکاح میں (ایک سے زائد مثلاً) دو بیویاں ہوں  اور وہ ان دونوں کے درمیان عدل و برابری نہ کرے تو قیامت کے دن (میدانِ محشر میں) اس طرح سے آئے گا کہ اس کا آدھادھڑ ساقط ہوگا۔"

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"وأما قوله تعالى: {‌مثنى ‌وثلاث ورباع} فإنه إباحة للثنتين إن شاء وللثلاث إن شاء وللرباع إن شاء، على أنه مخير في أن يجمع في هذه الأعداد من شاء; قال: فإن خاف أن لا يعدل اقتصر من الأربع على الثلاث، فإن خاف أن لا يعدل اقتصر من الثلاث على الاثنتين، فإن خاف أن لا يعدل بينهما اقتصر على الواحدة."

(سورة آل عمران، ج:2، ص:69، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(الباب الحادي عشر في القسم) ومما يجب على الأزواج للنساء العدل والتسوية بينهن فيما يملكه والبيتوتة عندها للصحبة والمؤانسة لا فيما لا يملك وهو الحب والجماع كذا في فتاوى قاضي خان. والعبد كالحر في هذا كذا في الخلاصة. فيسوي بين الجديدة والقديمة والبكر والثيب والصحيحة والمريضة والرتقاء والمجنونة التي لا يخاف منها والحائض والنفساء والحامل والحائل والصغيرة التي يمكن وطؤها والمحرمة والمولى منها والمظاهر منها كذا في التبيين."

(كتاب النكاح، الباب الحادي عشر في القسم، ج:1، ص:340، ط:دار الفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144405101108

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں