بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا میکے بیٹھ جانے اور طلاق کا دعوی کرنے کا حکم


سوال

میری شادی 1990ء میں ہوئی تھی،1993ء سے میرے کاروباری حالات خراب رہے،میری بیوی گاؤں میں تھی، جب گاؤں گیا تو بیوی زیادہ اخراجات کا مطالبہ کرتی تھی، میں اس سے یہی کہتا کہ گاؤں میں میرا جو کام ہے ، میں وہی کروں گا ،اوراسی کے حساب سے خرچہ دوں گا ،لیکن ہمارے آپس  کے تعلقات صحیح نہیں ہوئے، تقریباً 18 سال سے میری بیوی مجھے اپنے قریب نہیں آنے دیتی ، میں کئی بار گاؤں گیااور اصلاح کی کوشش کی،لوگوں کو بھی بیچ میں ڈال کر بات بنانے کی کوشش کی،لیکن وہ نہیں مانی، میں نے اس سے کہا کہ اگر تم میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو میرا 35 تولہ سونا مجھے واپس کر کے مجھ سے خلع لےلو ،لیکن اس نے اس بات کو بھی قبول نہیں کیا،اب اس نے یہ دعویٰ کرنا شروع کر دیا ہے کہ میں نے اسے طلاق دے دی ہے،حالانکہ میں نے اسے طلاق نہیں دی ہے،ایسی صورت میں مجھے کیا کرنا چاہئے؟

جواب

واضح رہے کہ شادی کے بعد بیوی  کا  بلاوجہ شوہر سے ناراض ہوکر میکے میں  رہنا، اور شوہر کے بلانے کے باوجود نہ آنا  سخت گناہ ہے، احادیثِ مبارکہ میں  ایسی عورت کے بارے میں   وعیدیں آئی ہیں، اور جو بیوی  شوہر کی فرماں  برداری  اور اطاعت کرے اس کی بڑی فضیلت  بیان  کی گئی ہے۔     

    حدیثِ مبارک  میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ پاک ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان لعنتها الملائكة حتى تصبح".

 (مشکاۃ المصابیح، 2/280،  باب عشرۃ النساء، ط؛ قدیمی)

ترجمہ: رسول کریم ﷺ نے فرمایا: اگر کوئی مرد اپنی عورت کو ہم بستر ہونے کے لیے بلائے اور وہ انکار کردے، اور پھر شوہر (اس انکار کی وجہ سے) رات بھر غصہ کی حالت میں رہے  تو فرشتے  اس عورت پر صبح تک لعنت بھیجتے  رہتے ہیں۔(مظاہر حق، 3/358، ط؛  دارالاشاعت)

 لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل نے اپنی بیوی کو کوئی طلاق نہیں دی ، تو ایسی صورت میں سائل کا نکاح بدستور برقرار  ہے، سائل بیوی کے ساتھ اپنا گھر آباد کر سکتا ہے،اور ایسی صورت میں  بیوی پر  لازم ہے کہ وہ  اپنے شوہر (سائل )کے پاس آجائے، اور سائل  پر بھی لازم ہے کہ   وہ بیوی کے حقوق کی مکمل رعایت کرے،  قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں عورتوں کے حقوق بڑی اہمیت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں ۔

باقی بیوی اگر بدستور طلاق   کا دعویٰ کرتی ہے اور سائل اس کا انکار کرتا ہے،تو ایسی صورت میں (میاں، بیوی) پر لازم ہے کہ کسی مستند عالمِ دین یا مفتی صاحب کے پاس جاکر انہیں اپنے اس مسئلے کا  فیصل/ ثالث مقرر کریں، پھر بیوی  اس کے سامنے اپنامذکورہ  دعویٰ پیش کرے  اور فیصل/ ثالث بیوی  سے اس کے دعوی پر شرعی گواہ طلب کرے، اگر بیوی دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کو   گواہ پیش کردے تو  فیصل/ ثالث بیوی پر   طلاق واقع ہونے کا فیصلہ کرے گا ، اگر  بیوی شرعی گواہ  پیش  نہ کرسکے تو بیو ی کے مطالبہ پر شوہر  ( سائل ) پر قسم آئے گی،  اگر شوہر ( سائل ) قسم اٹھا لیتا ہے  تو  فیصل/ ثالث طلاق واقع  نہ ہونے کا فیصلہ کرے گا۔

نیز:  اگر بیوی کی طرف سے زیادتی اور قصور  ہو تو شوہر خلع کے عوض حقِ مہر  کی واپسی کا مطالبہ کر سکتا ہے،اور اگر شوہر کی طرف سے زیادتی ہو تو شوہر کا خلع کے عوض حقِ مہر واپس  لینا مکروہ ہے۔

         اعلاء السنن میں ہے:

"البینة علی المدعي و الیمین علی من أنکر  .... هذا الحدیث قاعدۃ کبیرۃ من قواعد الشرع."

(15/ 350، کتاب الدعویٰ، ط: إدارۃ القرآن)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويصح التحكيم فيما يملكان فعل ذلك بأنفسهما وهو حقوق العباد و لايصح فيما لايملكان فعل ذلك بأنفسهما، وهو حقوق الله تعالى حتى يجوز التحكيم في الأموال والطلاق والعتاق والنكاح والقصاص وتضمين السرقة."

(3/397، الباب الرابع والعشرون فی التحکیم، ط؛ رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے :

"(وكره) تحريمًا (أخذ شيء) ويلحق به الإبراء عما لها عليه (إن نشز وإن نشزت لا)."

( کتاب الطلاق ، باب الخلع ، 3 / 445 ، ط : سعید )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102026

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں