بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا الگ رہائش کا مطالبہ


سوال

میری  دوسری شادی ہوئی  ہے، میرے شوہر کے تین بیٹے جوان ہیں،ایک کی عمر 37 دوسرے کی 30 تیسرے کی پچیس سال ہے ،میں ابھی الگ رہتی ہوں وہ چاہتے ہیں میں ان کے بیٹوں کے  ساتھ ان کے گھر میں رہوں،وہ میرے لئے غیر محرم ہیں یا میں ان کے ساتھ رہ سکتی ہوں ،ان کے بیٹے مجھے گالیاں بھی بہت دیتے ہیں اور مارنے کھڑے ہوجاتے ہیں،ورنہ وہ کہتے ہیں کہ تمھارا فیصلہ کردوں گا،اب بتائیں کیا بیٹوں کے ساتھ رہنا ٹھیک  ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  آپ کے شوہر  کے بیٹے (آپ کے سوتیلے بیٹے )آپ کے لئے محارم  ہیں،ان سے آپ کا پردہ نہیں ہے اور آپ ان کے ساتھ ایک گھر میں رہ سکتی ہیں،البتہ ان بیٹوں کا جو رویہ آپ نے ذکر کیا ہے  اس  کی بنا پر آپ آپ اپنے شوہر سے علیحدہ رہنے   کا مطالبہ کرسکتی ہیں۔مذکورہ سوتیلے بیٹوں کا سائلہ کے ساتھ مذکورہ رویہ اختیار کرنا حرام اور ناجائز ہے، ان پر لازم ہے کہ وہ اپنے اس برے رویہ سے توبہ کریں۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  میں ہے:

 "قوله: (وامرأة أبيه وابنه وإن بعدا) أما حليلة الأب فبقوله تعالى: { ولا تنكحوا ما نكح آباؤكم من النساء } النساء 22 فتحرم بمجرد العقد عليها والآية المذكورة استدل بها المشايخ كصاحب النهاية وغيره على ثبوت حرمة المصاهرة بالزنا بناء على إرادة الوطء بالنكاح فإن أريد به حرمة امرأة الأب والجد ما يطابقها من إرادة الوطء قصر عن إفادة تمام الحكم المطلوب حيث قال: و لا بامرأة أبيه."

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات في النكاح،ج:3،ص: 100، ط:دارا لكتاب الاسلامي )

فتاوی ہندیہ میں ہے: 

"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله و أهلها إلا أن تختار ذلك كذا في العيني شرح  الكنز."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الثاني في السكني، ١/ ٥٥٦، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100875

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں