بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا اپنے گھر جانے کی صورت میں نفقہ کا مطالبہ کرنا


سوال

میری شادی کو پینتالیس دن ہوگئے ہیں،اس دوران بیوی سے کوئی ازدواجی تعلق قائم نہیں ہوا ہے،میرے اصرار کرنے پر بیوی بحث و تکرار پر اتر آئی ،اس کا کہنا یہ ہے کہ" میں نے تو شادی کے لیے منع کردیا تھا،میں تو تیار ہی نہیں تھی،لیکن ہمارے یہاں لڑکیوں کی سنی ہی نہیں جاتی"،یہ جواب سن کر  میں نے  دو دن بعد اس کے والدین کو اپنے گھر بلایا اور ان کو اپنی ساری صورتِ حال بتائی ۔واضح رہے کہ نکاح فارم پر لڑکی کےدستخط موجود ہیں۔

یہاں یہ بات بھی قابل ِوضاحت ہے کہ لڑکی جاب کرتی ہے ،جس پر پہلے مجھے اعتراض نہیں تھا،لیکن اب تئیسویں روز اس کے والدین کو صورت حال سےآگاہ کرنے کے بعد میں نے جاب کرنے پر اعتراض کیا اور یہ پابندی عائد کردی کہ میرے گھر سے کوئی جاب نہیں ہوگی۔اس پر والدین نے کسی سنجیدگی کا اظہار نہیں کیا،اوربیٹی سے کہا کہ اپنے زیورات ساتھ لے کر گھر(میکے) چلو اور بعد میں عدالت کے ذریعہ خلع کا نوٹس بھجوادیا(باقاعدہ طور سے ابھی تک خلع نہیں ہوا ہے، بلکہ 6 جنوری کو کورٹ میں پیشی ہےاورمیں نےابھی تک خلع قبول نہیں کیاہے) اور نان و نفقہ کہ مد میں جب سے میکے گئی ہے، اس وقت سے عدت تک پچیس ہزرا ماہانہ کا مطالبہ کیا ہے،اور یہ بھی کہا ہے کہ لڑکالیاقت نیشنل ہسپتال میں "ایچ آر مینیجر"ہے اور ہینڈسم اماؤنٹ کماتا ہے،جب کہ یہ بات جھوٹ ہے ۔لڑکا وہاں "ایچ آر آفیسر "ہے اور پچپن ہزار روپے تنخواہ ہے۔

ایسی صورت حال میں  معاوضہ طلب کرنا کیا شرعی اعتبار سے جائز ہے؟اور اگر جائز ہے تو معاوضہ کیا ہونا چاہیے؟

جواب

واضح رہے کہ شوہر پر بیوی کا نان و نفقہ اس صورت میں لازم ہوتا ہے جب بیوی شوہر کے گھر میں رہ رہی ہو ،لیکن اگر بیوی شوہر کی رضامندی اور اجازت کے بغیر اس کے گھر سے چلی جائے تو شوہر کے ذمہ اس کا نان و نفقہ لازم نہیں ہوتا،نیز طلاق یا باہمی رضامندی سے خلع (کیوں کہ یک طرفہ خلع شرعا معتبر نہیں ہے)ہونے کی صورت میں عدت کے دوران بیوی کا نان و نفقہ اس  صورت میں لازم ہوتا ہے ،جب بیوی شوہر کے گھر میں عدت گزارے،بصورت دیگر نان ونفقہ لازم نہیں ہوتا۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے صورت ِمسئولہ میں اولاً تو شوہر جب تک خلع کو قبول نہ کرے ، شرعا خلع معتبر ہی نہیں ہوگا اور بیوی بدستور  سائل کے نکاح میں  رہے گی،  اور اگرشوہر خلع کو قبول بھی  کرلے تو جتنا عرصہ سائل کی بیوی اپنے میکے میں رہی، اس کا نفقہ سائل پر لازم ہی نہیں تھا؛لہٰذا سائل سے اس کا مطالبہ کرنا بھی درست نہیں ہے،اور اگر عدت بھی اپنی مرضی سے اپنے میکے میں گزارے گی تو اس کا نفقہ بھی سائل کے ذمہ لازم نہیں ہوگا اور اس کا مطالبہ کرنا بھی شرعا درست نہیں ہے۔ 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن نشزت فلا نفقة لها حتى تعود إلى منزله والناشزة هي الخارجة عن منزل زوجها المانعة نفسها منه۔"

(کتاب النفقات/1/ 545/ط:رشیدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ونفقة الأمة المنكوحة) ولو مدبرة أو أم ولد، أما المكاتبة فكالحرة (إنما تجب) على الزوج ولو عبدا (بالتبوئة) بأن يدفعها إليه ولا يستخدمها (فلو استخدمها المولى) أو أهله (بعدها أو بوأها بعد الطلاق لأجل انقضاء العدة لا قبله) أي ولم يكن بوأها قبل الطلاق (سقطت) بخلاف حرة نشزت فطلقت فعادت

(قوله بخلاف حرة نشزت إلخ) أي أن الحرة إذا نشزت فطلقها زوجها فلها النفقة والسكنى إذا عادت إلى بيت الزوج

(باب النفقة،3/ 598،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا خاصمت المرأة زوجها في نفقة ما مضى من الزمان قبل أن يفرض القاضي لها النفقة وقبل أن يتراضيا عن شيء فإن القاضي ‌لا ‌يقضي ‌لها نفقة ما مضى عندنا كذا في المحيط۔"

 (کتاب الطلاق،الباب السابع عشر،1/ 551،ط:رشیدية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو وجبت العدة على المرأة، ثم حبست بحق عليها تسقط النفقة، والمعتدة إذا كانت لا تلزم بيت العدة بل تسكن زمانا وتبرز زمانا لا تستحق النفقة كذا في الظهيرية۔"

(کتاب الطلاق،الباب السابع عشر،1/ 558،ط:رشیدية)

مجمع الأنهر  میں ہے:

"ولا نفقة لناشزة) أي عاصية ما دامت على تلك الحالة ثم وصفها على وجه الكشف فقال (خرجت) الناشزة (من بيته) خروجا حقيقيا أو حكميا (بغير حق) وإذن من الشرع قيد به؛ لأنها لو خرجت بحق كما لو خرجت لأنه لم يعط لها المهر المعجل أو لأنه ساكن في مغصوب أو منعته من الدخول إلى منزلها الذي يسكن معها فيه بحق كما لو منعته لاحتياجها إليه وكانت سألته أن يحولها إلى منزله أو يكتري لها منزلا آخر، ولم يفعل لم تكن ناشزة وقيد بالخروج؛ لأنها لو كانت مقيمة معه ولم تمكنه من الوطء لا تكون ناشزة؛ لأن البكر لا توطأ إلا كرها۔"

(کتاب الطلاق،باب النفقة،1/ 488،ط:دار احیاء التراث )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100644

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں