بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی دو طلاقوں کی مدعی ہے جب کہ شوہر منکر ہے تو کیا حکم ہوگا؟ / مہرِ مؤجل کی ادائیگی کا وقت جس کے لیے کوئی مدت مقرر نہ کی گئی ہو / لڑکی والوں کے لیے لڑکے سے طلاق پر جرمانہ لینا شرعاً ناجائز ہے


سوال

پانچ ماہ قبل میرے بیٹے کی شادی میرے ماموں کی بیٹی سے ہوئی، نکاح نامہ منسلک ہے، نکاح نامہ میں مہر پانچ تولہ سونا تین تولہ معجل اور دو تولہ غیر معجل لکھا تھا اور نکاح نامہ میں یہاں یہ لکھا ہوتا ہے کہ "آیا پورے مہر یا اس کے کسی حصہ کے عوض کوئی جائیداد دی گئی ہے، اگر دی گئی ہے تو اس جائیداد کی صراحت اور اس کی قیمت جو فریقین کے مابین طے پائی ہے،" کے سامنے  لکھاگیا تھا: ایک عدد کمرہ، یہ وضاحت نہیں کی گئی تھی کہ یہ ایک عدد کمرہ کتنے مہر کے عوض میں ہے، یہ بھی لکھا ہے کہ بصورتِ ناچاکی(طلاق) پانچ لاکھ روپے یعنی ناچاقی (طلاق) کی صورت میں اگر لڑکی والے مطالبہ کریں تو لڑکے والے یہ رقم ادا کریں گے، نکاح کے وقت میں نے ماموں سے کہا کہ یہ شرط آپ کیوں لگا رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ ویسے ہی ڈرانے کے لیے لگا رہا ہوں، یہ پیسے آپ سے لے لوں گا نہیں، اب میری بہو گاؤں چلی گئی ہے، خود میرے ماموں بغیر کسی ناراضگی کے اسے گاؤں لے گئے ہیں اور کہا کہ گاؤں میں ایک شادی میں شرکت کے بعد واپس بھیج دیں گے، لیکن وہاں سے انہوں نے اور بہو نے کہا کہ شوہر نے مجھے دو بار طلاق دی ہے اور اس کے پاس کوئی گواہ بھی نہیں ہیں،  میرا بیٹا اس کا منکر ہے اور قسم اٹھانے کے لیے تیار ہے کہ اس نے طلاق نہیں دی ہے،  بحث کے دوران واٹس اپ پر جب بہو نے کہا کہ شوہر نے دو بار طلاق دی ہے تو میری بیوی نے کہا کہ دو بار طلاق دی ہے، تین بار تو نہیں دی ہے۔

دریافت یہ کرنا ہے کہ اب ماموں کا باقی سونے ، ایک کمرے  اور پانچ لاکھ روپے کا مطالبہ درست ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں طلاق کے متعلق چوں کہ میاں بیوی کے بیان میں اختلاف ہے، اس لیے میاں بیوی کو چاہیے کہ کسی معتبر عالمِ دین یا مستند مفتی کے پا س جا کر  ان کو اپنا فیصل مقرر کریں اور ان کو اپنا معاملہ بتا کر ان سے فیصلہ کرالیں، پھر وہ عالمِ دین یا مفتی صاحب شریعت کی روشنی میں جو فیصلہ کردیں دونوں فریق اس کےمطابق عمل کریں۔

باقی دو تولہ سونا چوں کہ مہرِ غیر معجل ہے جس کی ادائیگی کے لیے کوئی مدت متعین نہیں کی گئی تھی، اس لیے طلاق سے پہلے بیوی کو اس کے مطالبے کا حق نہیں ہے۔

اسی طرح نکاح کے وقت یہ شرط لگانا کہ "بصورتِ ناچاقی ( طلاق )  اگر لڑکی والے مطالبہ کریں تو لڑکے والوں کو پانچ لاکھ روپے اد اکرنا ہوں گے،"  شرعاً شرطِ فاسد ہے، اس شرط کا کوئی اعتبار نہیں ہے، لہذا لڑکی والوں کو اس رقم کے مطالبہ کا کسی صورت میں بھی حق نہیں ہے، لڑکی والوں کے لیے یہ رقم لینا ناجائز اور حرام ہے، اور  کمرے کے متعلق بھی چوں کہ نکاح کے وقت یہ وضاحت نہیں کی گئی تھی کہ یہ کتنے مہر کے عوض میں  ہے،اس لیے ( طلاق ہوئی ہے یا نہیں، دونوں صورتوں میں )بطورِ مہر بیوی کو کمرے کا مطالبہ کرنے کا حق نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لو قال نصفه معجل ونصفه مؤجل كما جرت العادة في ديارنا ولم يذكر الوقت للمؤجل اختلف المشايخ فيه قال بعضهم لا يجوز الأجل ويجب حالا وقال بعضهم يجوز ويقع ذلك على وقت وقوع الفرقة بالموت أو بالطلاق وروى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - ما يؤيد هذا القول، كذا في البدائع۔"

(الفتاوي الهندية، المجلد1، كتاب النكاح، الباب السابع في المهر، الفصل الحادي عشر في منع المراة نفسها بمهرها و  التاجيل في المهر، ص: 318، ط: المكتبة الرشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان۔"

(فتاوي شامي بهامش الدر المختار، المجلد4، كتاب الحدود، باب التعزير، ص: 61، ط: ايچ ايم سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أما شرائط الصحة۔۔۔منها أن يكون المبيع معلوما والثمن معلوما علما يمنع من المنازعة فبيع المجهول جهالة تفضي إليها غير صحيح كبيع شاة من هذا القطيع وبيع شيء بقيمته وبحكم فلان۔"

(الفتاوي الهندية، المجلد3، كتاب البيوع، الباب الاول، ص: 3، ط: المكتبة الرشيدية)

فقط و الله اعلم


فتوی نمبر : 144305100189

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں